سورة لقمان - آیت 25

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے (١٨) کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے : اللہ آپ کہہ دیجیے کہ تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ جانتے ہی نہیں ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٢]الحمدللہ جب فریق مخالف اپنے ہی اعتراف میں پھنس جائے:۔ یعنی اللہ کی تعریف اس بات پر ہے کہ انہوں نے یہ تو خود ہی تسلیم کرلیا کہ آسمانوں اور زمین یعنی کل کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اب ان کے اس اعتراف کا جو لازمی نتیجہ نکلتا ہے اس سے یہ لوگ بے خبر ہیں یا بے خبر رہنا چاہتے ہیں۔ اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو ان کے اس اعتراف کی عین ضد ہیں۔ مثلاً ایک شخص جب یہ اعتراف کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر اسے لازماً یہ بھی تسلیم کرلینا چاہئے کہ الٰہ اور رب بھی صرف اللہ ہی ہوسکتا ہے۔ بندگی اور عبادت کا مستحق بھی وہی ہوسکتا ہے۔ اپنی مخلوق کا حاکم وہی اور شارع بھی وہی ہوسکتا ہے۔ دعا اور فریاد بھی صرف اسی سے کرنا چاہئے۔ عقلی لحاظ سے یہ کیسے قابل تسلیم ہوسکتا ہے کہ خالق تو کوئی اور ہو اور معبود اس کی مخلوق بن بیٹھے۔ اور جو شخص اللہ کو خالق تسلیم کرلینے کے بعد دوسروں کو معبود سمجھتا ہے۔ اور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے دوسروں کو پکارتا ہے۔ اسے اپنی عقل کا ماتم کرنا چاہئے۔