وَلَئِنْ أَرْسَلْنَا رِيحًا فَرَأَوْهُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوا مِن بَعْدِهِ يَكْفُرُونَ
اور اگر ہم ایک دوسری قسم کی ہوا بھیج دیں (٣٤) جس کے اثر سے وہ اپنی کھیتیوں کو زرد دیکھنے لگیں، تو اس کے بعد ناشکری کرنے لگتے ہیں
[٥٧] نعمت اور زوال نعمت پر ایک دنیادار کا کردار:۔ پھر اس کے بعد جب خزاں کا موسم آتا ہے۔ اور نباتات سرد پڑنے لگتی ہے تو انسان پھر سے مایوس ہوجاتا ہے اور اللہ کے حق میں کفریہ کلمات بکنے اور شکوے شکایات کرنے لگ جاتا ہے۔ ان آیات میں دراصل ایک دنیادار اور خدا فراموش انسان کی فطرت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی دنیا دار پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو اس وقت خوش تو ہوتا ہے مگر اللہ کا شکر پھر بھی ادا نہیں کرتا اور جب نعمت کے زوال کا وقت آتا ہے تو اس وقت اسے اللہ یاد تو آتا ہے مگر شکرگزاری کے لئے نہیں بلکہ اسے کفریہ اور ناشکری کے کلمات کا ہدف بنانے کے لئے۔ نعمت ملنے پر اللہ کا احسان ماننے کے لئے تو قطعاً تیار نہ تھا۔ زوال نعمت پر اور بھی برگشتہ ہوگیا اور اللہ کو کو سنے لگ گیا کہ اس نے ہم پر کیسی یہ مصیبت ڈال دی ہے۔ ان آیات میں ایک لطیف اشارہ بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی جب اللہ کے رسول اس کی طرف سے پیام رحمت لاتے ہیں تو لوگ اس کی بات نہیں مانتے اور اس نعمت کو ٹھکرا دیتے ہیں پھر جب ان کے کفر کی پاداش میں اللہ تعالیٰ ان پر ظالموں اور جباروں کو مسلط کردیتا ہے اور وہ جو ظلم و ستم ڈھاتے ہیں تو وہی لوگ اللہ کو گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں اور اس پر الزام یہ دیتے ہیں کہ اس نے کسی ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا بنا ڈالی ہے۔