فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ الْقَيِّمِ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۖ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ
پس اے میرے نبی ! آپ درست دین (دین اسلام) پر قائم (٢٩) ہوجایئے، اس دن کے آنے سے پہلے جسے اللہ کی طرف سے کوئی ٹال نہیں سکتا ہے، جس دن لوگ جدا جدا ہوجائیں گے
[٥٠] لہٰذا اے نبی! اور اے مسلمانو! مشرکوں کے ان تمام لغویات سے منہ موڑ کر دین فطرت کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ کیونکہ ہر طرح کی خرابیوں اور فسادات کی جڑ یہ شرک ہی ہے۔ اور ان کا علاج صرف یہی ہے کہ اپنی تمام تر توجہ اللہ کی طرف مبذول کرلو اور اسی پر توکل رکھو۔ [ ٥١] یعنی جیسے موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اسے کوئی بھی اپنے سے ٹال نہیں سکتا اور نہ اس کے وقت وہ تقدیم و تاخیر ہوسکتی ہے۔ اسی طرح قیامت بھی ایک اٹل حقیقت ہے جو نہ کسی کے ٹالے ٹل سکتی ہے نہ کوئی اسے اپنے آپ سے ٹال سکتا ہے اور نہ ہی اس میں تقدیم و تاخیر ممکن ہے اور ان دونوں حقیقتوں میں مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی مر گیا تو اسی دن اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ (مشکوۃ کتاب الفتن۔ باب فی قرب الساعۃ وان من مات فقد قامت قیامتہ) بالفاظ دیگر اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے پہلے شرکیہ عقائد سے کلیتاً دستبردار ہو کر دین فطرت کی طرف آجاؤ۔ [ ٥٢] یعنی کسی کافر کو یہ مجال نہ ہوگی کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں جاملے۔ یا اگر پہلے ملا ہے تو وہیں رہ جائے بلکہ سب لوگ مجبور ہوں گے کہ اپنے سے تعلق رکھنے والی جماعت میں فوراً جا شامل ہوں۔ اور یہ کام اتنی سرعت سے ہوگا جیسے کوئی اکٹھا مجمع فوراً پھٹ کر کئی حصوں میں بٹ جائے۔