قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلُ ۚ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ زمین میں چلو (٢٨) اور جا کر دیکھو کہ تم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں ان کا کیا انجام ہوا، ان میں سے اکثر لوگ مشرک تھے
[٤٩]ہرقسم کےفسادکی اصل وجہ شرک اور یوم آخرت سے انکار ہے:۔ یعنی سابقہ اقوام کی تباہی کا اصل سبب شرک تھا۔ اب مشرکین میں سے اکثر تو ایسے ہوتے ہیں جو روز آخرت کے منکر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مشرکین مکہ کا حال تھا اور اگر ان کا آخرت پر عقیدہ ہو بھی تو پھر وہ اس عقیدہ میں کچھ ایسے اضافے کرلیتے ہیں جو عقیدہ آخرت کے اصل مقصد کو بے کار کرکے رکھ دیتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ ہم قیامت کے دن فلاں حضرت کا دامن پکڑ لیں گے اور ان کے ساتھ ہی جنت میں جا داخل ہوں گے۔ یا مثلاً فلاں پیر حضرت کی بیعت کرلی جائے تو ان کی شفاعت سے ہم نجات پا جائیں گے یا یہ کہ فلاں بزرگ کے مزار پر جو بہشتی دروازہ بنا ہوا ہے اس کے عرس کے دن اگر گزرا جائے تو بہشت واجب ہوجائے گی۔ اب دیکھئے کہ اگر سستی نجات کے اس قسم کے عقیدے اپنا لئے جائیں تو اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کا کچھ خوف باقی رہ جاتا ہے۔ پھر ایسے مشرکوں میں اور عقیدہ آخرت کے منکر مشرکوں میں کتنا فرق باقی رہ جاتا ہے؟ عقیدہ آخرت کا صحیح تصور ہی انسان کو گناہوں سے باز رکھ سکتا ہے ورنہ انسان گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے۔ پھر یہی گناہ افراد اور اقوام کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔