وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور تم لوگ جو سود) (٢٥) دیتے ہو، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور تم لوگ جو زکوۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں
[٤٤] سود سے قومی معیشت تباہ ہوتی اور زکوٰۃ سےپھللتی پھولتی ہے:۔ یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت کے سلسلہ میں نازل ہوئی، پھر سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٣٠ کی رو سے مسلمانوں کو سود در سود سے روک دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے چار ماہ پیشتر سورۃ بقرہ کی آیات نمبر ٢٧٥ تا ٢٨١ کی رو سے مکمل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔ چونکہ شراب کی طرح سود بھی اہل عرب کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ لہٰذا ایسی برائیوں کلی استیصال بتدریج ہی ممکن تھا۔ اب اصل مسئلہ کی طرف آئیے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سود سے مال بڑھتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں دولت مندوں کی تعداد غریبوں کی تعداد کی نسبت بہت قلیل ہوتی ہے اور سود لینے والے دولت مند ہوتے ہیں اور دینے والے غریب اور محتاج۔ اب سود سے فائدہ تو ایک شخص اٹھاتا ہے اور نقصان سینکڑوں غریبوں کا ہوجاتا ہے۔ اور اللہ کی نظروں میں اس کی سب مخلوق یکساں ہے بلکہ اسے دولتمندوں کے مفاد سے غریبوں کے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ اور سود خور سود کے ذریعہ بے شمار غریبوں کا مال کھینچ کر انھیں مزید مفلس اور کنگال بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ تو اسی حقیقت کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ سود کے ذریعہ مال بڑھتا نہیں بلکہ گھٹتا ہے۔ یہ اس مسئلہ کا ایک پہلو ہوا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ علم معیشت کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ کہ جس معاشرہ میں دولت کی گردش جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی وہ معاشرہ خوشحال ہوگا اور اس کی قومی دولت میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر دولت کا بھاؤ غریب سے امیر کی طرف ہوگا تو یہ گردش بہت کم ہوجائے گی۔ کیونکہ امیر طبقہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود قومی معیشت پر تباہ کن اثر ڈالتا ہے۔ اور اگر دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو اور یہ بات صرف زکوٰ ۃ و صدقات کی صورت میں ہی ممکن ہوتی ہے، تو دولت کی گردش تیز ہوجائے گی۔ کیونکہ ایک تو غریبوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے دوسرے ان کی ضروریات محض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے اٹکی ہوتی ہیں۔ لہٰذا دولت کی گردش میں تیزی آنے کی وجہ سے ایک تو سارا معاشرہ خوشحال ہوتا جائے گا دوسرا قومی معیشت پر بھی خوشگوار اثر پڑے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : ﴿ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ﴾(۲۷۶:۲) یعنی جس معاشرہ میں سود کا رواج ہوگا اس میں برکت نہیں رہے گی وہ بالآخر قلاش ہوجائے گا۔ غریب طبقہ کی تعداد دن بدن بڑھتی جائے گی اور وہ اپنا پیٹ پالنے کی خاطر امیر طبقہ پر جائز اور ناجائز طریقوں سے حملہ آور ہو کر ان کا مال ان سے چھین لے اور اس غرض کے لئے اگر اس کا کام چوری اور ڈاکہ، لوٹ مار سے چلتا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ قتل و غارت سے بھی کبھی دریغ نہ کرے گا۔ اسلامی نظام معیشت کی بنیاددوچیزیں :۔ اسلامی اقتصادیات یا اسلامی نظام معیشت پر بڑی لمبی چوڑی تصانیف بازار میں دستیاب ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول صرف دو ہی ہیں۔ ایک ملک سے سود کا خاتمہ اور دوسرے اس کے بجائے نظام زکوٰ ۃ و خیرات کی ترویج۔ سود ہی وہ لعنت ہے جو نظام سرمایہ داری کی جان ہے۔ اس کے خاتمہ سے نظام سرمایہ داری کی جان از خود نکل جاتی ہے۔ رہی سہی کسر اسلام کا قانون میراث نکال دیتا ہے۔ سود کے خاتمہ کے بعد جب نظام زکوٰۃ و صدقات اس کی جگہ لے لیتا ہے تو طبقاتی تقسیم از خود ختم ہوجاتی ہے۔ اور معاشرہ خوشحال بن جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے معاشیات کی کتابیں پڑھنے اور اس کے اصول سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ صرف تجربہ کی ضرورت ہے اور تجربہ ہر انسان کم از کم اپنے خاندان میں کرکے اس کے ثمرات و برکات کو بچشم خود ملاحظہ کرسکتا ہے۔ اگرچہ اتنے چھوٹے پیمانے پر سود کے خاتمہ اور زکوٰ ۃ و خیرات کی ترویج سے پورے ثمرات تو حاصل نہیں ہوسکتے۔ تاہم ایسے خاندان کی حالت پہلے سے بدرجہا بہتر ہوسکتی ہے۔ غریب کی امیر سے نفرت۔ حسد اور کینہ وغیرہ جیسے قبیح جذبات ماند پڑجاتے ہیں۔ اور ان کی جگہ مروت، ہمدردی اور اخوت جیسی اعلیٰ قدریں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ جس سے ایک طرف تو معاشرہ میں کشیدگی کے بجائے محبت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسرے دولت کی ناہموار تقسیم میں خصوصی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جس سے معاشرہ کے ہر فرد کو کم از کم بنیادی ضروریات ضرور مہیا ہوتی رہتی ہیں۔ [ ٤٥]زکوٰ ۃ سے مال کیسے بڑھتاہے؟ اس کا ایک مطلب تو اوپر بیان ہوچکا ہے کہ جو لوگ اللہ کی رضا کی خاطر زکوٰ ۃ و خیرات دیتے ہیں۔ تو وہ معاشرہ خوشحال ہوجاتا ہے۔ غریبوں کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے جس کا فائدہ بالآخر پھر دولت مند تاجروں اور صنعت کاروں کو ہی پہنچتا ہے اور اس طرح انھیں جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ سود پر روپیہ دینے کی نسبت بہت زیادہ ہوجاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو لوگ صدقات و زکوٰ ۃ ادا کرتے ہیں انھیں قیامت کو اس سے بہت زیادہ اجر ملے گا۔ یہ اجر دس گناہ بھی ہوسکتا ہے۔ ستر گناہ بھی سات سو گنا بھی بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور اس اجر کی کمی بیشی کے لئے بھی اللہ کے ہاں چند اصول ہیں۔ مثلاً جس محتاج کی ضرورت پوری کی گئی وہ کس حد تک ضرورت مند تھا۔ خرچ کرنے والے کی نیت میں خلوص کتنا تھا۔ اور پھر اس نے یہ نیکی کرنے کے بعد کوئی ایسا کام تو نہیں کیا جس سے وہ اپنا اجر ضائع کر دے۔ یا خرچ کرتے وقت کچھ ریا کا عنصر تو شامل نہیں تھا اور خرچ کرنے کے وقت شریعت کی ہدایات کو ملحوظ رکھا گیا تھا یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔