فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
پس عیسیٰ نے ان کی جانب سے کفر کو بھانپ لیا، تو کہا کہ اللہ کی خاطر میری کون مدد کرے گا؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں، اور (اے عیسی) آپ گواہ رہئے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں
[٥١]سیدنا یحیٰ کا قتل اور عیسیٰ کاارادہ قتل:۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پوری طرح معلوم ہوچکا تھا کہ یہود اور ان کے علماء دلائل کے میدان میں مات کھا کر اب ان کی زندگی کے درپے ہوچکے ہیں اور اس کام کے لیے سازشیں تیار کر رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ انبیاء کو ناحق قتل کرنا یہود کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے۔ یہود کے ایک رئیس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسے برگزیدہ پیغمبر کا سر قلم کر ڈالا ہے تو انہیں اپنی موت کے آنے میں کچھ شبہ نہ رہا۔ اب انہیں فکر تھی تو یہ تھی کہ دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام نہ رکنا چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چند پیرو کاروں کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کون ہے جو اس سلسلہ میں میری مدد کرے۔ تاکہ اللہ کے دین کو فروغ حاصل ہو۔ [٥٢] حواری کون تھے؟ اس بات میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ تاہم اس بات پر اتفاق ہے کہ حواری کا مفہوم وہی کچھ ہے جو لفظ انصار کا ہے۔ یعنی اللہ کے نبی اور دین کے مددگار۔ حواری کا مفہوم اس واقعہ سے بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ غزوہ خندق کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یوں بھی مدد فرمائی کہ نہایت ٹھنڈی اور تیز ہوا بصورت سخت آندھی چلا دی۔ جس نے کفار کے لشکر کے خیمے تک اکھاڑ پھینکے۔ ان کی ہانڈیاں الٹ گئیں اور وہ بددل ہو کر ناکام واپس چلے جانے کی باتیں سوچنے لگے تو اس صورت حال کی صحیح رپورٹ لینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ کون ہے جو کفار کے لشکر کی خبر لاتا ہے؟ اس کڑاکے کی سردی میں اور آندھی میں نکل کھڑے ہونے کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔ صرف حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے، جنہوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں جاتا ہوں‘‘ آپ نے پھر دوسری بار وہی سوال دہرایا تو پھر زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہی بولے کہ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جاتا ہوں‘‘ تیسری بار آپ نے پھر سوال دہرایا تو تیسری بار بھی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہی جانے پر آمادہ ہوئے۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ ہر پیغمبر کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہے۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب الزبیر بن العوام) چنانچہ کچھ حواریوں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ہم اللہ کے دین کی خدمت کریں گے اور از سر نو عہد و پیمان کیا اور عیسیٰ سے کہا کہ آپ گواہ رہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے اور اس کے فرمانبردار بنتے ہیں : بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صدق دل سے مرید اور خاص شاگرد تعداد میں بارہ تھے اور ان کے نام یہ ہیں : (١) شمعون، جسے پطرس بھی کہتے ہیں، (٢) شمعون یا پطرس کا بھائی اندریاس، (٣) یعقوب بن زیدی (، ٤) یوحنا، (٥) یوحنا کا بھائی فلیپوس، (٦) برتھولما، (٧) تھوما، (٨) متی، (٩) یعقوب بن حلفائی، (١٠) تہدی، (١١) شمعون کنعانی اور (١٢) یہودا اسکریوتی۔ یہ وہ بارہ حواری یا انصار تھے۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت ہر قیمت پر آگے بڑھانے کا حضرت عیسیٰ سے عہد کیا تھا۔