مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
یعنی ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے بنا لئے اور مختلف گروہوں میں بٹ گئے، ہر گروہ کا جو دین و عقیدہ ہے اس پر خوش ہے
[٣٥]توحیدکےعقیدہ میں ترمیم یااضافہ کرنےوالےسب مشرک ہیں:۔ یعنی فطری دین تو خالص توحید پر مبنی ہے۔ اب جو کوئی اس فطری دین میں کچھ بگاڑ پیدا کرے گا یا اس میں کچھ اضافے کرے گا پھر ان بگڑے ہوئے یا زائد عقائد پر لوگوں کی جتھہ بندی کرکے کوئی ایک فرقہ کھڑا کردے گا جس کا امتیاز وہی بگڑا ہوا یا زائد عقیدہ ہوسکتا ہے تو ایسے سب کام شرک میں داخل ہیں اس طرح اس فطری دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے، ان میں اضافے کرنے والے اور ان کی اتباع کرنے والے سب کے سب مشرک ہوئے۔ انسان کی ابتداتوحید سے ہوئی تھی نہ کہ شرک سے:۔ اس آیت کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ انسان ابتداًء توحید پرست تھا۔ توحید ہی اس کا فطری مذہب ہے۔ نیز ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام خود نبی تھے اور نبی فطری دین یعنی توحید کا داعی ہوتا ہے لیکن جب موجودہ دور کے محققین مذہب کی تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان ابتداًء مظاہر پرست تھا پھر آہستہ آہستہ توحید کی طرف پلٹا ہے۔ یہ فلسفہ مذاہب سراسر وہم و قیاس پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے فطری حقائق کو مسخ کرکے اور ان میں اضافے کرکے نئے نئے مذاہب اور فرقے ایجاد کر ڈالے ہیں (تفصیل کے لئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢١٣ کا حاشیہ نمبر ٢٨١ ملاحظہ فرمائیے) [ ٣٦]ہرفرقہ اپنےہی عقائدکا گرویدہ ہے:۔ مزید بگاڑ یہ پیدا ہوگیا کہ جو فطری حقائق تھے انھیں تو لوگوں نے درخور اعتنا ہی نہ سمجھا اور اپنی اپنی اضافہ کردہ چیزوں کا ہی گرویدہ اور مفتوں ہوگیا۔ جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہو کر ایک الگ فرقہ بنا تھا۔ پھر ہر فرقہ کے لوگوں میں اپنے ٹھہرائے ہوئے اصول و عقائد پر کچھ ایسا تعصب پیدا ہوگیا کہ اسے اپنے ان غیر فطری اور مہمل عقائد میں غلطی کا امکان تک تصور میں نہیں آتا تھا۔ اور ہر کوئی دوسرے فرقوں کو گمراہ قرار دینے لگا اور صرف اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر اسی میں مگن ہوگیا۔