إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ
بے شک اللہ (44) میرا اور تمہارا رب ہے، پس اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے
[٥٠] ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت بھی بعینہ وہی کچھ تھی جو دوسرے تمام انبیاء کی رہی ہے۔ مثلاً: ١۔ پروردگار یعنی مقتدر اعلیٰ صرف اللہ کی ذات ہے۔ لہٰذا وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے۔ اس لحاظ سے عیسائیوں کا عقیدہ الوہیت مسیح غلط قرار پاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ کی حیثیت سے نبی کی اطاعت کی جائے اور ہر نبی کی دعوت یہی رہی ہے۔ ٣۔ حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کے اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا جو باتیں تم نے خود اپنے اوپر حرام قرار دے رکھی ہیں۔ میں اللہ کے حکم سے انہیں حلال قرار دے کر تمہیں ایسی ناجائز پابندیوں سے آزاد کرتا ہوں۔ نیز آپ نے اللہ کے حکم سے یہود پر ہفتہ کے دن کی پابندیوں میں بہت حد تک تخفیف کردی۔ مگر یہود کی اصلاح نہ ہوسکی اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دشمنی میں آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔