يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ
وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا (٩) ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے اور اسی طرح تم لوگ بھی اپنی قبروں سے نکالے جاؤ گے
[١٥] اور یہ عمل ہر وقت جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ حیوانات کی بے جان غذاؤں سے نطفہ کو، پھر نطفہ سے حیوانات کو پیدا کرتا رہتا ہے اور اس عمل میں انسان بھی شامل ہے۔ اور پرندوں سے انڈے کو، پھر انڈے سے زندہ پرندہ کو پیدا کرتا رہتا ہے اور اللہ کا یہ کارنامہ سب لوگ ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں۔ [ ١٦] نباتات اور انسان کی پیدائش سےبعثت بعدالموت پردلائل:۔یعنی جب مردہ زمین پر بارش پڑتی ہے تو اس سے نباتات، پودے اور درخت ہی نہیں اگ آتے بلکہ حیوانات بھی آگ آتے ہیں موسم برسات آتا ہے تو ہزارہا مینڈک ٹرانے لگتے ہیں۔ جھینگر اور پپیہے درختوں پر بولنے لگتے ہیں اور بے شمار قسم کے حشرات الارض اگ آتے ہیں جن کا پہلے نام و نشان تک نہ تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جاندار مخلوق آخر کیسے اور کہاں سے وجود میں آگئی؟ تو جیسے یہ وجود میں آسکتی ہے خواہ تمہیں اس کی سمجھ آئے نہ آئے ویسے ہی جب صور میں پھونکا جائے گا جو مردہ انسانوں کے لئے موسم برسات کا حکم رکھتا ہے تو تم بھی زمین سے ایسے ہی پیدا ہوجاؤ گے جیسے ان جانوروں کو پیدا ہوتے دیکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر بعث بعد الموت پر بارش کے پانی سے نباتات کے اگ آنے کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے چنانچہ سورۃ ق میں تقریباً ایسے الفاظ سے ارشاد فرمایا۔ ﴿وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ ﴾ (۱۱:۵۰) نباتات کا اگنا بعث بعد الموت پر کیسے دلیل بن سکتا ہے اس مقام پر قارئین کے غور و فکر کے لئے ایک وسیع میدان چھوڑ دیا گیا ہے۔ پھر بعض مقامات پر بعث بعد الموت یعنی انسان کی دوسری بار کی پیدائش کو پہلی بار کی پیدائش سے تشبیہ دے کر اسے آسان تر قرار دیا گیا ہے جیسے فرمایا : ﴿کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ﴾ (۱۰۴:۲۱)گویا اب تین باتیں سامنے آگئیں۔ ایک انسان کی پہلی بار کی پیدائش، دوسرے نباتات کی پیدائش اور ان دونوں کی تشبیہ اور دلیل کے طور پر تیسری چیز انسان کی دوسری بار کی پیدائش کو بطور دلیل لایا گیا ہے۔ ان میں سے تیسری چیز کے متعلق ہم مشاہدہ اور تجربہ سے کچھ بھی جان نہیں سکتے۔ البتہ پہلی چیز کو دوسری سے نسبتاً زیادہ جان سکتے ہیں۔ اور پہلی چیز سے متعلق بھی ہمارا علم جو تجربہ اور مشاہدہ سے حاصل ہوا ہے صرف اتنا ہی ہے کہ جب رحم مادر میں ماں باپ کے نطفہ کا ملاپ ہوجاتا ہے تو عورت کا ماہواری خون آنا بند ہوجاتا ہے اور جو خون ماہواری ایام کی صورت میں عورت کے جسم سے خارج یا ضائع ہوجاتا تھا۔ وہی خون اب اس مخلوط نطفہ کی تربیت میں صرف ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور عورت کے خون سے ماہواری خون یا حیض کا خون بننا اور اسی طرح عورت کے اصل خون سے نطفہ بننا کوئی مستقل عادی امر نہیں تھا بلکہ یہ دونوں چیزیں اس وقت بننا شروع ہوئیں جب عورت جوان اور اولاد پیدا کرنے کے لئے قابل بن گئی۔ اس سے پیشتر اس کے اصل خون سے یہ دونوں چیزیں پیدا نہیں ہوئی تھیں حالانکہ اس کے جسم کی ساخت میں یہ صلاحیت اس کی پیدائش کے پہلے دن سے ہی اس میں ودیعت کردی گئی تھی۔ یہی حال مرد کے نطفہ کا ہوتا ہے اس کے خون سے نطفہ یا منی صرف اس وقت بنتی ہے جب وہ جوان اور اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اس کے جسم کی ساخت میں منی بنانے والے آلات یعنی خصیے وغیرہ اس پیدائش کے پہلے دن سے ہی بنائے گئے تھے گویا عورت اور مرد کے نطفہ بنانے والے اعضا نے اپنا اپنا کام ہی اس وقت شروع کیا جب وہ دونوں اولاد بنانے کے قابل ہوگئے۔ اور جب بڑھاپے کا دور آتا ہے تو دونوں کے جسم سے منی بنانے والے آلات موجود ہونے کے باوجود بھی اپنا اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس معاملہ میں عورت اور مرد دونوں بے بس ہوتے ہیں اگر وہ چاہیں بھی کہ عورت اور مرد کے جسم میں نصب شدہ آلات بڑھاپے میں بھی منی بنانے کا کام کرتے رہیں تو وہ ایسا کر نہیں سکتے۔ مرد کے جسم میں صرف منی بنانے والے اعضا ہوتے ہیں جو جوانی کے وقت اپنا کام شروع کرتے اور بڑھاپا آنے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن عورت کے جسم میں ایسے اعضا تین طرح کے ہوتے ہیں ایک حیض کا خون بنانے والے، دوسرے منی بنانے والے اور یہ دونوں جوانی کے وقت اپنا کام شروع کرتے اور بڑھاپا آنے پر کام چھوڑ دیتے ہیں۔ اور تیسری قسم کے اعضاء وہ ہیں جو خون کے کچھ حصے کو دودھ میں منتقل کرتے ہیں۔ اور یہ اعضا اس کے پستان ہیں۔ پستانوں کے نشانات عورت اور مرد دونوں کے سینے پر پہلے دن سے ہی موجود ہوتے ہیں۔ جوان ہونے پر عورت کے ان نشانات میں ابھار شروع ہوجاتا ہے تاآنکہ وہ اپنی مکمل صورت اختیار کرلیتے ہیں اور یہ تبدیلی صرف عورت کے جسم میں ہوتی ہے۔ مرد کے جسم میں نہیں ہوتی۔ یہی مشینری خود کو دودھ میں منتقل کرنے کا کارخانہ ہوتا ہے اور یہ مشینری صرف اس وقت اپنا کام شروع کرتی ہے۔ جب حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کام نہیں کرتی۔ خواہ عورت بالکل جوان اور اولاد پیدا کرنے کے قابل ہو۔ حمل قرار پانے کے بعد یہ مشینری حرکت میں تو آجاتی ہے۔ مگر خون سے دودھ بننے کا عمل اس وقت مکمل ہوتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے تاکہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اسے غذا میسر آسکے اور اس کی تربیت کا سلسلہ جو پہلے حیض کے خون سے ہوتا تھا۔ وہ جاری رہ سکے پھر کیا ان اعضاء کا صرف اپنے اپنے مقررہ وقت ہی کام کرنا اور بعد میں اپنا کام چھوڑ دینا ہی اللہ تعالیٰ کے (خَلاَّقُ الْعَلِیْمِ) ہونے پر زبردست دلیل نہیں؟ رحم مادر میں استقرار حمل کے بعد اس مخلوط نطفہ کی تربیت حیض کے گندے اور سیاہ رنگ کے خون سے ہوتی ہے جو اس مخلوط مادہ منویہ پر حاوی ہو کر اسے منجمد اور لمبوترے سے منجمد خون کی شکل میں تبدیل کردیتا ہے اور مخلوط مادہ منویہ کا وجود اس میں باقی نہیں رہتا بلکہ وہ اس میں مدغم ہوجاتا ہے۔ پھر یہی جما ہوا خون گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یعنی اس جمے ہوئے خون میں سختی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر اسی گوشت کے لوتھڑے سے بچہ کی صورت کے نقش و نگار بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ رحم مادر میں ایسے سات قسم کے تغیرات ہوتے ہیں۔ جنہیں انسان خود بھی آلات کے ذریعہ مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ ان کا علم حاصل کرسکتا ہے۔ وہ ان چیزوں کا مشاہدہ اور علم تو حاصل کرسکتا ہے جو وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہیں لیکن وہ یہ نہیں جان سکتا کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟ بالکل یہی صورت کسی غلے یا درخت یا پودے کے بیج کی ہوتی ہے جو دراصل مرد یا کسی بھی نر کے نطفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ زمین اس کے لئے رحم مادر کا درجہ رکھتی ہے۔ تو جس طرح مرد کے نطفہ کا کسی عورت کے رحم میں جا پڑنے سے استقرار حمل ضروری نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہر بیج میں جو زمین پر گر پڑے اس سے درخت بننا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر جب ایسی زمین جس میں بیج پڑا ہو۔ بارش کے پانی سے سیراب ہوجاتی ہے۔ اور موسم ساز گار ہوتا ہے تو یہ گویا اس بیج کے استقرار حمل کا وقت ہوتا ہے۔ پانی سے زمین کے ذرات میں حرکت پیدا ہونے لگتی ہے، وہ پھول جاتے ہیں اور زمین میں دفن شدہ بیج سے مل جاتے ہیں اور اسے اپنے اندر ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس طرح بیج اپنا وجود ختم کرکے ایک ملغوبہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پھر اسی ملغوبہ سے نرم و نازک کونپل نکلتی ہے۔ زمین کے اندر بیج پر بعینہٖ اس قسم کے تطورات آتے ہیں جس طرح انسان کے نطفہ پر رحم مادر میں آتے ہیں۔ تاآنکہ یہی نرم و نازک کونپل چند دن بعد زمین کا سینہ چیر کر زمین سے باہر نکل آتی ہے پھر زمین ہی سے اپنی خوراک حاصل کرنا شروع کردیتی ہے۔ یہ باتیں ہم مشاہدہ تو کرسکتے ہیں لیکن یہ نہیں جان سکتے کہ کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔ پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مرے ہوئے انسان کے جسم کے ذرات بالآخر زمین میں پہنچ جاتے ہیں۔ خواہ کسی کی میت زمین میں دفن کی گئی ہو۔ یا جلا دی گئی ہو یا دریا برد ہوئی ہو یا اسے درندوں نے پھاڑ کر کھایا ہو۔ بالآخر اس کے ذرات بلاواسطہ یا بالواسطہ زمین میں پہنچ جاتے ہیں اور یہی زمین انسان کی دوسری پیدائش کے لئے رحم مادر کا کام دیتی ہے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انسان کی ریڑھ کی ہڈی کی دم جس کا نام عجب الذنب ہے۔ اس کے ذرات کبھی فنا نہیں ہوتے، انھیں ذرات میں سے ایک ذرہ انسان کے بیج یا نطفہ کا کام دیتا ہے، لیکن یہ زمین میں اس وقت تک بیکار پڑا رہے گا جب تک اسے مناسب موسم میسر نہ آئے۔ اور اس کا مناسب موسم وہ بارش ہے جو قیام قیامت کے بعد نفخہ صور یا حشر کے دن سے پہلے اسی زمین پر برسے گی اور یہ چیز بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ پھر اس بارش کے پانی سے زمین کے ذرات پھول کر انسان کے بیج کو ڈھانپ لیں گے پھر اس ملغویہ پر وہی تطورات شروع ہوجائیں گے جو حیض کی صورت میں ماں کے پیٹ میں اور بیج کی صورت میں زمین کے پیٹ میں واقع ہوتے ہیں پھر معینہ مدت کے بعد تمام کے تمام انسان زمین میں سے اس طرح اگ آئیں گے جس طرح زمین کو پھاڑ کر نباتات اگ آتی ہیں اور جس طرح یہ تطورات ماں کے یا زمین کے پیٹ میں طبعی طور پر واقع ہوتے ہیں جس میں انسان کا یا بیج کا اپنا عمل دخل کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہی تطورات دوسری پیدائش کی صورت میں انسان پر طبعی طور پر واقع ہوں گے۔ جس میں اس کے اپنے ارادہ و اختیار کو کچھ دخل نہ ہوگا اور معینہ مدت کے بعد وہ زمین سے باہر نکل آنے پر مجبور ہوگا۔﴿کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ﴾ اور ﴿کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ﴾ سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ تطورات بالکل ویسے ہی طبیعی طور پر واقع ہونے والے امور ہوں گے جیسا کہ ماں کے یا زمین کے پیٹ میں واقع ہوتے ہیں اور یہ تو واضح بات ہے کہ یہ دوسری بار کی پیدائش اللہ تعالیٰ کے لئے پہلی بار کی پیدائش سے آسان تر ہوگی۔ اس آیت میں تُخْرَجُوْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی تم زمین سے نکال لئے جاؤ گے۔ اور تمہارا یہ نکالا جانا ایک اضطراری عمل ہوگا جس میں تمہاری مرضی کو کچھ عمل دخل نہ ہوگا جیسے تم جب اس دنیا میں آئے یا اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس میں تمہاری اپنی مرضی کا کچھ عمل دخل نہ تھا۔ اسی طرح تمہارا دوبارہ جی اٹھنا بھی ایک قہری اور اضطراری امر ہوگا۔ اس سلسلہ میں تمہاری رائے نہیں لی جائے گی۔ نہ تمہارا کچھ عمل دخل ہوگا۔