فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ
پس تم لوگ اللہ کی پاکی (٨) بیان کرو، جب شام کرو اور جب صبح کرو
[١٤]نمازوں کےا وقات میں آفتاب پرستوں کی مخالفت:۔ یعنی مشرکین کے عقائد باطلہ سے اللہ کی تنزیہہ بیان کرو۔ مشرکین اپنے عقائد باطلہ کی ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ اللہ اکیلا اس ساری کائنات کا انتظام کیسے سنبھال سکتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ وہ کچھ اختیارات دوسری ہستیوں کو تفویض کر دے۔ لہٰذا مسلمانوں کو حکم ہوا کہ وہ ایسے بیہودہ اور لچر عقائد سے اللہ کی پاکیزگی بیان کریں۔ اکثر مفسرین نے یہاں تسبیح سے مراد نماز لی ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ یہاں نمازوں کے اوقات بیان ہوئے ہیں۔ مشرکوں کی اکثریت ایسی رہی ہے جو انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات اور تاثیر کے قائل تھے۔ اور سورج کی تاثیر سے چونکہ تمام زمینی مخلوق متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے معبود اکبر سمجھ کر مختلف رنگوں میں سورج کی اور آگ کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔ سورج پرست عموماً طلوع آفتاب اور غروب کے وقت اس کی پرستش کرتے تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کو حکم ہوا کہ ان اوقات میں کوئی فرضی نماز تو کجا نفلی نماز بھی ادا نہ کی جائے۔ نیز سورج پرست سورج کی پوجا ان اوقات میں کیا کرتے تھے جب سورج مائل بہ عروج ہو۔ یعنی طلوع آفتاب سے نصف النہار تک۔ لہٰذا اس دوران کسی فریضہ نماز کا وقت مقرر نہیں کیا گیا۔ دو نمازیں تو اس وقت آتی ہیں جب سورج زوال پذیر ہو اور تین نمازیں اس وقت مقرر کی گئیں جبکہ سورج غائب ہوتا ہے۔ آیت نمبر ١٧ میں صبح اور شام کی نماز کا ذکر آگیا اور بعض کے نزدیک تُمْسُوْنَ میں شام اور عشاء دونوں شامل ہیں اور آیت نمبر ١٨ میں تیسرے پہر یعنی عصر کی نماز اور ظہر کی نماز کا ذکر آگیا۔ اور نماز بجائے خود اللہ کی تسبیح و تمہید کی بہترین شکل ہے۔ اور اگر ان دو آیات سے چار نمازوں کا ہی وقت سمجھا جائے تو سورۃ ہود کی آیت نمبر ١٤، بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٧٨ اور سورۃ طٰہٰ کی آیت نمبر ١٣٠ کو سامنے رکھا جائے تو قرآن سے ہی پانچ نمازوں کے اوقات کی صراحت ثابت ہوجاتی ہے۔