سورة الروم - آیت 9

أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا یہ لوگ (٤) زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں، تاکہ دیکھتے کہ ان قوموں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے گذر چکی ہیں، وہ قومیں ان سے زیادہ قوت والی تھیں اور انہوں نے زمین کو جوتا اور اسے اس زمانہ کے لوگوں سے زیادہ آباد کیا اور ان کے پاس بھی ان کے انبیاء معجزات لے کر آئے تھے، پس ایسا نہ تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرتا، بلکہ وہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧] یعنی ظلم کی عمارت ہمیشہ عقیدہ آخرت سے انکار کی بنیاد پر اٹھتی ہے۔ اور جن ظالم اقوام کو اللہ تعالیٰ نے تباہ کیا ان سب میں قدر مشترک یہی تھی کہ آخرت کے منکر تھے۔ کیونکہ جو شخص یا جو قوم آخرت میں اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کی قائل ہوگی وہ ظلم کر ہی نہیں سکتی۔ ان تباہ ہونے والی قوموں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو تم سے بہت زیادہ طاقتور تھے۔ فنون دنیا کے ماہر تھے۔ انہوں نے زرعی میدان میں بھی خوب ترقی کی تھی اور زمین کو چیر کر اس میں سے خزانے بھی نکالے تھے۔ اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے تم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ لیکن جب انہوں نے ظلم اور زیادتی پر کمر باندھی تو اللہ نے انھیں تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا اب اگر اے کفار مکہ! تم بھی وہی سرکشی اور ظلم کی راہ اختیار کرو گے تو آخر کیا وجہ ہے کہ تمہارا بھی انجام ایسا ہی نہ ہو۔ [ ٨] یعنی ایک تو تمہارے اندر آخرت کے لازمی ہونے کے دلائل موجود تھے، دوسرے کائنات میں موجود تھے، تیسرے تم پر اللہ کی رحمت ہوئی کہ اس نے رسول بھیج کر تمہیں مابعدالموت پیش آنے والے حقائق سے خبردار کرتے رہے۔ پھر بھی اگر تم لوگ عقیدہ آخرت کے منکر بن کر اپنی عاقبت تباہ کرلو تو اس میں تمہارا اپنا ہی قصور ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی کسی پر زیادتی اور ظلم نہیں کرتا۔