أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا ان کے لئے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے، جس کی ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے، بے شک اس میں ایمان والوں کے لئے رحمت اور نصیحت ہے
[٨٣]قرآن زندہ جاوید معجزہ ہے: یعنی پہلے انبیاء کو جتنے معجزات عطا کئے جاتے رہے وہ سب وقتی اور عارضی تھے جو کسی نے دیکھے کسی نے نہ دیکھے اور آج وہ سب ختم ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ قرآن ایسا زندہ جاوید معجزہ ہے جس کی اعجازی حیثیت کو تم خود بھی تسلیم کرتے ہو۔ پھر اور کون سا معجزہ چاہتے ہو؟ پھر یہ کتاب اس لحاظ سے سب کے لئے اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو میں تمہاری ٹھیک ٹھیک راہنمائی بھی کرتی ہے۔ آپ کی نبوت کےبعدصرف قرآن ہی کتاب ہدایت ہے:۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اس آیت کے مخاطب کفار ہیں اور اس کا وہی مطلب ہے جو اوپر بیان ہوا تاہم اس کے مخاطب مسلمان بھی ہیں۔ انھیں بھی اس کتاب کی موجودگی میں کسی اور کتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ خواہ وہ کوئی سابقہ آسمانی کتاب ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے پاس تورات کے کچھ اوراق لائے اور انھیں پڑھنا شروع کیا۔ آپ کا چہرہ متغیر ہو رہا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف نہیں دیکھتے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں، ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوگئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ فرو ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے کہ اگر آج موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤ گے۔ اور آج اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو میری اتباع کے سوا انھیں کوئی چارہ نہ ہوتا۔ (مشکوۃ۔ کتاب الایمان۔ باب الاعتصام بالکتاب والسنة۔ الفصل الثالث)