وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ
اور ابراہیم نے کہا (١٤) کہ تم لوگوں نے اللہ کے بتوں کو اپنے معبود اس لیے بنائے ہیں تاکہ دنیا کی زندگی میں تمہاری آپس میں محبت باقی رہے، پھر قیامت کے دن تم میں سے ہر ایک دوسرے کی دوستی کا انکار کردے گا اور ہر ایک دوسرے پر لعنت بھیجے گا اور تم سب کاٹھکانا جنہم ہوگی اور تمہارا کوئی یارومددگار نہیں ہوگا
[ ٣٨]قوم کے باہمی اتحادکی بنیاد شرکیہ رسوم:۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ سے صحیح سلامت نکل آنے کے بعد کہا تھا۔ یعنی تم لوگوں نے آپس میں باہمی محبت، بھائی چارہ اور قومی شیرازہ بندی کی بنیاد ان مشرکانہ رسوم کو بنا لیا ہے تاکہ ایسے مذہب کے نام پر ساری قوم متحد اور متفق رہے۔ قومی یگانگت کے لئے کوئی بھی بنیاد بنائی جاسکتی ہے خواہ یہ بنیاد بجائے خود کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو جیسے کہ آج کل وطن پرستی، قوم پرستی، نسل پرستی، ایسی ہی غلط بنیادوں پر لوگ متحد و متفق ہوجاتے ہیں اور یہ بنیادیں فساد کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم ان غلط قسم کی بنیادوں پر بھی لوگوں کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے، اکٹھا رکھا جاسکتا ہے اور ان میں باہمی محبت ہوسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح محبت پرستی اور شرکیہ عقائد پر بھی ایسا اتحاد و اتفاق ممکن ہے۔ اور بت پرستوں کی یہی آپس کی باہمی محبت ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر ان سے انتقام لینے کا باعث بنی تھی۔ مفسرین نے اس کی دوسری توجیہ یہ بیان کی ہے جو قوم نوح کے بتوں سے متعلق صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ اس قوم میں پانچ ایسے بزرگ تھے جو بڑے نیک بڑے عبادت گزار تھے اور انھیں دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ جب یہ بزرگ فوت ہوگئے تو پچھلوں کو اپنی عبادت میں وہ مزا نہ آتا تھا جو ان کی موجودگی میں آتا تھا۔ اب شیطان نے انھیں یہ پٹی پڑھائی کہ اگر وہ موجود نہیں رہے تو کوئی بات نہیں ان کے مجسمے بنا کر اپنے سامنے رکھ لو گے تو تمہیں عبادت میں وہی لطف آیا کرے گا۔ جو ان کی موجودگی میں آتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ان پانچ بزرگوں کے مجسمے اپنی عبادت گاہ میں رکھ لئے مگر وہ عبادت اللہ ہی کی کرتے تھے۔ پھر بعد کی نسلوں نے ان مجسموں کو ہی پوجنا شروع کردیا۔ اس طرح اس قوم میں بت پرستی کا رواج ہوگیا۔ اور اس کی بنیاد ہی بزرگوں سے ان کی باہمی محبت تھی۔ اور اس کی تیسری توجیہ یہ ہے کہ سب مشرکوں کو بتوں یا اپنے معبودوں سے محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ وہ ان کے عقیدہ کے مطابق ان کے حاجت روا اور مشکل کشا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ﴾(۱۶۵:۲)پھر اسی بنیاد پر ان مشرکوں کی آپس میں بھی محبت ہوجاتی ہے جیسے اللہ کے پرستاروں کی اصل محبت تو اللہ سے ہوتی ہے۔ لیکن اللہ والوں کی آپس میں باہمی محبت بھی ان کے ایمان کا جز بن جاتا ہے۔ [ ٣٩] معبودوں کا عبادت سےا نکار اور عابدومعبود کی دشمنی:۔ یعنی قیامت کے دن معبود حضرات خود اپے پرستاروں کی عبادت کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ کم بختو! ہم نے تمہیں کب کہا تھا کہ ہمارے بعد ہماری پوجا شروع کردینا اور اس بات کا بھی اقرار کریں گے کہ ہمیں کچھ خبر نہیں کہ ان لوگوں نے ہمیں اپنا معبود بنا لیا تھا۔ جب معبودوں کا یہ حال ہوگا تو عبادت گزاروں پر، جنہوں نے ان سے کئی طرح کی توقعات وابستہ کر رکھیں ہوں گی، جو گزرے گی اس کا بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا عابد، معبود دونوں ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجنے لگیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ جتنی آج یہ اپنے معبودوں اور اپنے ساتھیوں سے دوستی جتلا رہے ہیں۔ اتنے ہی زیادہ اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔