فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
توان کی قوم کا جواب (١٣) اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے آپس میں بات کی کہ تم لوگ اسے قتل کردو یا اسے آگ میں جلا دو، توالہ نے انہیں آگ سے نجات دی بے شک اس میں ایمانداروں کے لیے نشانیاں ہیں
[ ٣٦]قوم کا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کوآگ کے الاؤمیں پھینک دینا:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات کے درمیان آیت نمبر ١٩ سے لے کر آیت نمبر ٢٣ تک اللہ تعالیٰ کا اپنا کلام ہے۔ جس میں ربط مضمون کی نسبت سے توحید اور آخرت پر کچھ دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات کی طرف غور کیا جارہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل توحید کا جب قوم ابراہیم سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو وہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے اور یہی باطل پرستوں کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان کے بتوں کو توڑنے پھوڑنے کا واقعہ حذف کردیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کام اس لئے کیا تھا کہ قوم پر عملی طور پر واضح کرسکیں کہ ان کے معبود بالکل ناکارہ چیزیں ہیں جو اپنی حفاظت اور اپنے آپ سے نقصان کو دور نہیں کرسکتے وہ دوسروں کی مشکل کشائی کیسے کرسکتے ہیں۔ اسی مشاہداتی دلیل نے ان لوگوں کو اور بھی زیادہ مشتعل اور سیخ پا بنا دیا۔ آخر انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ ابراہیم کو مار ہی ڈالو اور اگر ایسا نہ کرو تو اسے آگ میں جلا ڈالو۔ آگ میں جلانے کے مشورہ میں بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ یہ اسے دکھ دینے والا آگ کا عذاب دے کر مارنا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ شاید آگ کا عذاب دیکھ کر اپنی باتوں سے باز رہنے کا عہد کرلے۔ بہرحال ان لوگوں نے لمبا چوڑا آگ کا الاؤ تیار کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آگ میں پھینک دیا۔ [ ٣٧] لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق میں ٹھنڈی اور غیر مضر بن جائے۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں اس طرح رہے جیسے کوئی شخص باغ اور گلزار میں رہتا ہے۔ اور اس میں نشانیاں یہ ہیں : (١) ہر چیز کے کچھ طبیعی خواص ہیں اور یہ خواص اللہ تعالیٰ نے ہی ہر چیز میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ (٢) ان خواص میں اللہ تعالیٰ جب چاہے تبدیلی لاسکتا ہے۔ اگرچہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کہ اگر اللہ چاہے تو بعض اشیاء کے طبیعی خواص سلب بھی کرسکتا ہے اور ان میں تبدیلی بھی لاسکتا ہے۔ (٣) اللہ کے بندوں کو اللہ کی مدد پہنچتی ضرور ہے۔ مگر پہلے انھیں ابتلا کے دور سے گزارا جاتا ہے اور ایسی خرق عادت مدد صرف اس وقت آتی ہے جب اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ اس واقعہ پر منکرین معجزات کی تاویل اور اس کا جواب سورۃ انبیاء کے حاشیہ نمبر ٥٨ کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔