وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ
اور اللہ یقینا ان لوگوں کو جانے گا جو صادق الایمان ہیں اور وہ یقینا منافقوں کو بھی جانے گا۔
[ ١٩] راہ حق میں تکالیف ومصائب پیغمبروں کی میراث ہے:۔یعنی اللہ تعالیٰ بار بار ایسے مواقع پیدا کرتا رہتا ہے جس سے سب کو معلوم ہوجاتا ہے۔ کہ فلاں شخص ایمان کے کس درجہ میں ہے۔ پختہ ایمان والا کون کون ہے، کمزور ایمان والا کون اور منافق کون ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ معرکہ حق و باطل کوئی وقتی اور عارضی سی چیز نہیں۔ اور نہ ہی یہ معرکہ ایسی چیز ہے جس کے نتائج صرف کسی معرکہ کارزار میں سامنے آئیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء چونکہ سب سے زیادہ پختہ ایمان والے ہوتے ہیں۔ اس لئے سب سے زیادہ ایذائیں اور مشکلات خود انہی کے حصہ میں آتی ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''اَشدُّ الْبَلَاءِ عَلَی الأَنْبِیَاءِ ثُمَّ الأَمْثَلْ فَالْأَمْثَل'' یعنی سب سے سخت مشکلات و مصائب انبیاء پر آتی ہیں پھر ان سے کم درجہ کے ایمان والوں پر پھر ان سے کم درجہ کے ایمان والوں پر۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان پر مشکلات کا دور آتا ضرور ہے۔ البتہ اس کا معیار یہ ہوگا کہ جتنا زیادہ پختہ ایمان والا ہوگا اتنی ہی سخت اس کی آزمائش ہوگی۔ ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کی پیروی میں تکلیف پہنچنا پیغمبروں کی میراث ہے اور ضروری نہیں کہ یہ تکلیف کافروں کے ہاتھوں ہی پہنچے، یہ مشرکوں کی طرف سے بھی پہنچ سکتی ہے۔ اہل بدعت اور دوسرے گمراہ فرقوں سے بھی اور مناقوں سے بھی۔ لہٰذا مبارک ہیں وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں ستائے جائیں۔ ان کی عزت پر حملہ ہو یا ان کا کوئی جانی یا مالی نقصان ہو، ان کے لئے سب کچھ باعث فخر ہوتا ہے۔