وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کی نصیحت (٥) کی ہے اور اگر وہ دونوں تم پر زور ڈالیں تاکہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ جس کا تمہیں علم نہیں تو ان کی بات نہ مانو تم سب کو میرے ہی پاس لوٹ کرآنا ہے پھر میں تمہیں تمہارے اعمال کی خبر دوں گا
[ ١٠] اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنے حقوق کے بعد متصلاً والدین کے حقوق اور ان سے بہتر سلوک کا ذکر فرمایا ہے۔ جس سے اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ تفصیل کے لئے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٢٣ کا حاشیہ ٢٥ [ ١١] یعنی تمام کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ کی شریک ہوسکے۔ اور اللہ کی اپنی شہادت بھی یہی ہے کہ وہ اللہ جو کائنات کا ایک ایک چیز کا ذرہ ذرہ بھر تک علم رکھتا ہے۔ اس کے علم میں بھی کوئی چیز نہیں جو اس کی شریک ہو۔ تو پھر تجھے یا کسی دوسرے کو کیا علم ہوسکتا ہے اور اس آیت میں لَکَ کا لفظ محض تاکید مزید کے طور پر ہے اور جو لوگ بعض اشیاء یا ہستیوں کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں تو یہ محض ان کے جاہلانہ اوہام اور بے سند خیالات ہیں۔ حقیقت کی انھیں بھی کچھ خبر نہیں۔ [ ١٢]حقوق والدین اورسعدبن ابی وقاص کی والدہ کا کردار:۔ یعنی والدین بھی تجھے شرک پر مجبور کریں تو ان کی یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاص کے بیٹے معصب رضی اللہ عنہ بن سعد کہتے ہیں کہ اس کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ سعد سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (اسلام) نہ چھوڑے گا، نہ ہی وہ کچھ کھائے گی اور نہ پئے گی۔ وہ سعد سے کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم دے رہی ہوں۔ پھر تین دن اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا اور نہ ہی سعد سے بات کی۔ تین دن کے بعد اسے غش آگیا تو اس کے ایک دوسرے بیٹے عمار نے اسے پانی پلایا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ سعد کے حق میں بددعا کرنے لگی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب فی فضل سعد بن ابی وقاص) اللہ کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت نہیں:۔ اور دوسری احادیث و روایات سے جو تفصیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جب اسلام لائے اس وقت آپ انیس بیس برس کے نوجوان تھے اور بالکل آغاز اسلام ایمان لائے تھے وہ خود روایت کرتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد مجھ پر سات دن ایسے گزرے ہیں کہ میں کل مسلمانوں کا تیسرا حصہ تھا (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعد) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانہ کے علاوہ اس وقت تک صرف تین آزاد مرد مسلمان تھے۔ جن میں سے ایک یہی حضرت سعد بن ابی وقاص تھے اور وہ اپنے ایمان میں اس قدر پختہ تھے کہ جب ان کی ماں نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دی۔ تو آپ نے اپنی ماں سے کہا : ماں! اگر تیری سو جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین سے نہیں پھروں گا۔ تو کھا یا نہ کھایا تجھے اختیار ہے۔ شرک تو خیر سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔ شریعت نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اگر اللہ کی نافرمانی کی کوئی بھی بات ہو تو اللہ کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہوسکتی ہے۔ (متفق علیہ) خواہ حکم دینے والے والدین ہوں یا بادشاہ ہو یا امیر ہو، کسی کی بھی اللہ کے مقابلہ میں اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ اس آیت سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ شرک یا اللہ کی نافرمانی کے علاوہ باقی ہر طرح کے معاملات میں والدین کی اطاعت فرض ہے۔ جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی والدہ نے بھی جو کافر تھی یہی کچھ سمجھا تھا۔ مگر دور حاضر کے مفسر قرآن جناب پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن میں اطاعت والدین کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں : کیااطاعت والدین قرآن کی روسے غیرضروری ہے؟”دنیا کے تمام مذاہب اور اخلاق کے دبستانوں میں یہ چیز (اطاعت والدین) ایک مسلمہ کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے کہ ’’ماں باپ کی اطاعت فرض ہے‘‘ ایسے مسلمہ کی حیثیت جو کسی بھی غور و فکر، تنقید کی محتاج ہی نہیں۔ ان کے ہاں کبھی کسی نے اتنا خیال کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ بھی کوئی ایسی بات ہے جس میں دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ لیکن قرآن کو دیکھئے۔ اس نے دنیا میں پہلی بار یہ آواز بلند کی ہے کہ جو لوگ عقل کے انحطاط کے دور میں پہنچ گئے ہوں ان کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے۔ ماں باپ حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ جب تک بچہ بچہ ہے وہ اس کے نگران اور کفیل ہیں۔ جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ وہ دوسروں کے تجربوں سے مشورہ سے فائدہ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اسے ان کے فیصلوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘ (قرآنی فیصلے ص ١٣٨) اس اقتباس سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے : ١۔ اخلاق کے تمام دبستان اور دنیا کے تمام مذاہب اطاعت والدین کی فرضیت پر متفق ہیں۔ ان مذاہب میں سب اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ جن کے انبیاء پر وحی الٰہی نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ والدین کی اطاعت سب انبیاء کی تعلیم کا حصہ رہا ہے۔ ٢۔ پھر ان مذاہب میں یا اہل کتاب میں مسلمان بھی شامل ہیں جنہیں قرآن جیسی کتاب دی گئی۔ اس قرآن میں پہلی بار یہ صدا بلند کی گئی کہ اطاعت والدین ایک بے معنی اور لغو چیز ہے۔ لیکن قرآن کی اس صدا پر مسلمانوں نے بھی کان تک نہ دھرا یا انھیں اس صدا کی سمجھ ہی نہ آسکی۔ اور وہ بھی اطاعت والدین دوسرے مذاہب کی طرح واجب ہی سمجھتے رہے تاآنکہ پرویز صاحب نے قرآن کی اس پہلی بار کی صدا کا صحیح مفہوم سمجھا اور وہ مفہوم یہ ہے کہ ’’والدین کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے‘‘ ٣۔ ماں باپ اپنی اولاد سے صرف حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ گویا پرویز صاحب کے خیال کے مطابق والدین کی اطاعت کے بغیر بھی ان سے حسن سلوک اور نرم برتاؤ ممکن ہے۔ والدین کی اطاعت کےنقصانات:۔ پھر اس کے بعد پرویز صاحب اپنے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب تک ماں باپ زندہ ہیں ان کا لڑکا خواہ ساٹھ ستر برس کا ہی کیوں نہ ہوجائے اسے کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنے فیصلے اپنی صوابدید کے مطابق کرے۔ اسے ان کے فیصلوں کی تعمیل کرنی ہوگی جن کی عقل کے متعلق اس کے خدا کا فیصلہ ہے کہ اس عمر میں اوندھی ہوجاتی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کو فرض سمجھنے والی اولاد ساری عمر عقلی طور پر اپاہج اور ذہنی طور پر بچے کے بچے رہ جاتے ہیں‘‘ (ایضاص ١٢٩) اب دیکھئے اس اقتباس میں پرویز صاحب نے جو مثال پیش فرمائی ہے وہ عقل اور نقل دونوں لحاظ سے غلط ہے۔ عقلی لحاظ سے اس طرح کہ جو اولاد خود ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے اس کے والدین سو سال کی لگ بھگ ہی ہوسکتے ہیں۔ اس عمر میں وہ نان شبینہ حتی کہ نقل و حرکت تک کے لئے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس حالت میں وہ کیا فیصلے دے سکتے ہیں اور اولاد کو کیسے حکم دے سکتے ہیں۔ وہ تو اس عمر میں اپنی رائے بتلانے کے بھی قابل نہیں رہتے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو اولاد ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے وہ تو خود ارذل العمر کی حدود میں داخل ہوچکی ہے۔ اسے کیا حق ہے کہ اب وہ اپنے فیصلے آپ کرے۔ اب فیصلے کرنے کے لئے اس کی اولاد موجود ہے۔ جو کم از کم چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر عقل کی پختگی حاصل کرچکی ہے۔ لہٰذا ساٹھ ستر برس کی اولاد کے لئے اس واقعاتی دنیا میں اطاعت والدین کا سوال بھی کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ اور نقلی لحاظ سے یہ دلیل اس لئے غلط ہے کہ قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس عمر میں لوگوں کی عقل اوندھی ہوجاتی ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں : ﴿ وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ ﴾ اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں۔ یعنی بچے سے جوان، پھر جوان سے بوڑھا کردیتے ہیں۔ جوانی میں وہ طاقتور تھا، بڑھاپے میں کمزور ہوجاتا ہے اس کا جسم بھرا ہوا اور سڈول تھا، بڑھاپے میں وہ نحیف و نزار ہو جاتا ہے اور اس کے بند ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔ اس آیت میں اس کی خلقت کے اوندھا ہونے کا ذکر ہے۔ عقل کا نہیں، اس مضمون سے ملتی جلتی دوسری آیت یہ ہے : ﴿وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیًْٔا ﴾ (۷۰:۱۶)’’اور تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور جاننے کے بعد بے علم ہوجاتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے۔ وہ اپنا سابقہ حاصل کیا ہوا علم بھی بھول جاتے ہیں۔ اس آیت میں بھی عقل کے اوندھا ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’جب بچہ بچہ ہے، والدین اس کے نگران اور کفیل ہیں، جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے‘‘ اب سوال یہ ہے کہ بچپن میں تو بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے ان کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا، ورنہ اس کی تعلیم و تربیت رک جاتی ہے۔ پھر وہ نابالغ ہونے کی بنا پر شرعی احکام کا مکلف بھی نہیں ہوتا۔ اطاعت والدین کا تو سوال ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ عاقل و بالغ ہوجائے اور یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں جوانی کا جوش، جذبات کی فراوانی اور عقل کی ناپختگی ہوتی ہے اور درحقیقت یہی وہ دور ہوتا ہے جس میں اسے والدین کی اطاعت کرنا ضروری ہوتی ہے تاآنکہ وہ عقل کی پختگی کی عمر یعنی چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے فیصلے آپ کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں اولاد نے والدین کی خدمات کا کیا صلہ دیا ؟ معلوم ہوتا ہے کہ پرویز صاحب کو بھی اپنے اس گھپلے کا احساس ہوگیا۔ چنانچہ بعد میں لکھتے ہیں کہ : ’’اس میں شبہ نہیں کہ ہماری موجودہ معاشرت (جس میں خاندانوں میں مشترکہ زندگی بسر ہوتی ہے) کی عائلی زندگی کا تقاضا ہے کہ افراد خاندان کے متفقہ فیصلوں کے ماتحت زندگی بسر کریں اور خود سر اور سرکش نہ ہوجائیں لیکن خودسری اور سرکشی اور شے ہے اور اصابت رائے اور شے‘‘ پھر اس عبارت پر حاشیہ دے کر فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں کہ یاد رکھئے خود فیصلے کرنے کے لئے عقل کی پختگی اور رائے کی اصابت لاینفک شرط ہے۔ اس لئے بچہ جب تک اس منزل تک نہ پہنچ جائے اسے لامحالٰہ بڑوں کے فیصلہ کے مطابق چلنا ہوگا۔‘‘ (ایضا ص ١٢٩) اس اقتباس میں جواب طلب امور یہ ہیں : ١۔ کیا بڑوں میں والدین بھی شامل ہیں یا نہیں؟ یا صرف اطاعت والدین کی مخالفت میں ان بڑوں میں والدین کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا گیا ؟ ٢۔ قرآن نے جو پہلی بار صدا بلند کی تھی کہ بڑوں کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوتے اس صدا کے خلاف اب آپ خود ہی کیوں نوجوانوں کو ایسے مشورے دینے لگے؟ ٣۔ اگر چھوٹے بڑوں کے فیصلوں کے پابند ہوں گے تو اس طرح وہ عقلی لحاظ سے اپاہج بن جائیں گے اس بات کا آپ کے پاس کیا علاج ہے؟ اب ہم قرآن ہی سے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی اطاعت فرض ہے : ١۔ سورۃ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْـنًا وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ﴾(۸:۲۹) ”اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا، پھر اگر وہ اس بات کے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کی حقیقت کا تجھے علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کر“ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اطاعت والدین حسن سلوک میں شامل ہے اور دوسری یہ کہ شرک کے معاملہ میں والدین کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ باقی سب معاملات میں ان کی اطاعت لازم ہے۔ ٢۔ اور سورۃ لقمان میں بالکل ایسے ہی الفاظ آئے ہیں البتہ یہ وضاحت زیادہ ہے : ﴿ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ﴾ (۱۵:۳۱) ”اور دنیوی معاملات میں والدین کا اچھی طرح ساتھ دے خواہ وہ مشرک ہوں“ ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ﴾(۵۹:۴) ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں سے اولی الامر ہیں‘‘ یہاں اولی الامر جمع کا صیغہ ہے اور اس سے مراد صرف حکام سلطنت ہی نہیں بلکہ ہر وہ فرد بھی شامل ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ مثلاً والدین، استاد، محلہ کے چوہدری، خاندان کے سربراہ وغیرہ وغیرہ یعنی اور وہ مسلمان ہیں اور اللہ کی معصیت کا حکم نہیں دیتے تو ان سب کی اطاعت لازم ہے۔ آخر ان اولی الامر کے زمرہ سے والدین کو کس لحاظ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ کیااطاعت کےبغیرحسن سلوک ممکن ہے:۔ ٤۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ﴿ وَّځ ابِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا ﴾ (۱۴:۱۹) ’’یحییٰ علیہ السلام اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والے تھے۔ ان پر دباؤ ڈالنے والے اور نافرمان نہیں تھے“ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے والدین کا، خواہ وہ کسی عمر میں ہوں، سرکش اور نافرمان ہو وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا۔ گویا حسن سلوک میں دو باتیں ضرورہیں، (١) سختی کے بجائے نرمی کا سلوک اور (٢) ان کی فرمانبرداری۔ بالفاظ دیگر والدین کی اطاعت کے بغیر ان سے حسن سلوک کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ٥۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی تھی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب عاقل ہوگئے تو ان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ : ﴿ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ﴾(۱۰۲:۳۷) ”میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر کر رہا ہوں، تم دیکھو کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت اسماعیل نے کہا : ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کچھ کیجئے“ سیدنااسماعیل کی اطاعت کا بے نظیر نمونہ:۔اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اس وقت عاقل و بالغ اور رائے دینے کے لئے قابل ہوچکے تھے۔ دوسرے یہ کہ یہ اللہ کا حکم خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نہیں ہوا تھا۔ بایں ہمہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے بوڑھے والد کی اطاعت کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ نہ اس واقعہ سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ حضرت اسماعیل نے اپنے والد کی اطاعت میں جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی انکار نہیں کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ یہ تو خواب کی بات ہے یا یہ کہ نعوذ باللہ اب باپ بوڑھا ہوگیا ہے جو اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے یا یہ کہ باپ تو محض میری رائے پوچھ رہا ہے کوئی حکم تو نہیں دے رہا۔ یا یہ کہ اگر خواب میں حکم ہوا ہے تو میرے باپ کو ہوا ہے، مجھے تو نہیں ہوا۔ بلکہ اپنے باپ کی منشاء کے آگے (حکم کے آگے نہیں) سرتسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ﴿فَلَمَّا أسْلَمَا﴾ کہہ کر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اپنے باپ کی منشاء کی اطاعت بھی عین اللہ کی اطاعت تھی، کیا اس سے بڑھ کر بھی بوڑھے والدین کی اطاعت کے سلسلہ میں قرآن سے کوئی ثبوت و دلیل درکار ہے۔ یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی مندرجہ بالا تصریحات سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے ہیں : ١۔ بلوغت سے پہلے بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے والدین کی اطاعت پر مجبور ہوتا ہے۔ اور اس بچہ کی اطاعت اس لحاظ سے بھی خارج از بحث ہے کہ اس عمر میں بچہ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا۔ ٢۔ بلوغت سے لے کر چالیس سال کی عمر تک (یعنی پختگی عقل اور اصابت رائے کی عمر تک) کے عرصہ میں اولاد کو والدین کی اور بزرگوں کی اطاعت کرنا لازم ہے کیونکہ اس عمر میں جوانی کا جوش اور جذبات کی شدت انسان کی عقل پر غالب ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنا نفع و نقصان بھی درست طور پر سوچنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کی اپنی عافیت بھی اسی بات میں ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی اطاعت کرے۔ ٣۔ اندازاً چالیس سال کی عمر کے بعد جب اس کی عقل پختہ ہوجاتی ہے اس وقت تک اس کے والدین کہولت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ وہ خود اولاد کے محتاج ہونے کی وجہ سے اپنا کوئی حکم اپنی اولاد کے سرتھوپ نہیں سکتے۔ تاہم اس عمر میں بھی اگر اولاد اپنے والدین کی مرضی کو مقدم رکھے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اگر کہیں اختلاف واقع ہوجائے تو پھر بھی اولاد کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے بحث و جدال کرے یا ان کو دبائے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ ایسی حالت میں بھی ان کو اف تک نہ کہے۔ انھیں دبانا یا ڈانٹنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ایسی صورت میں وہ اپنی بات نرمی سے پیش کرکے دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرے اور دنیوی امور میں یعنی ان کے قیام و طعام کے سلسلہ میں دل و جان سے ان کی خدمت کرے۔ ٤۔اطاعت والدین کی حدود:۔ اگر والدین اللہ سے شرک یا دوسرے کسی معصیت کے کام پر اولاد کو مجبور کریں یعنی اللہ کے مقابلے میں کوئی حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ بس یہی ایک صورت ہے جس میں ان کی نافرمانی کی جاسکتی ہے۔ خواہ یہ ان کی عمر کا کوئی دور ہو۔ [ ١٣] یعنی والدین ہو یا اولاد، فرمانروا ہو یا رعایا کا کوئی فرد سب کو اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ وہ ہر ایک معاملہ میں تمہیں بتلا دے گا کہ زیادتی کس کی تھی اور حق پر کون تھا۔