وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور آپ کا رب جو کچھ چاہتا (٣٥) ہے پیدا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے (اپنی رسالت کے لیے) چن لیتا ہے ان مشرکین کو کوئی اختیار نہیں (کہ وہ ہمارے شرک چنیں) اللہ تمام عیوب سے پاک اور مشرکوں کے شرک سے بلند وبالا ہے
[٩٢] یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب لوگوں کا خالق ہے اس لئے وہی یہ بات جان سکتا ہے کہ اس نے کس شخص کو کس طرح کی خصوصیات اور استعداد عطا کی ہے۔ پھر وہ اپنے اسی علم کی بنا پر اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اور جس کام کے لئے چن لیتا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ نے یہ سب لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اوامر و نواہی یا لوگوں کو کسی کام کا حکم دینے اور کسی کام سے باز رہنے کا حکم دینے کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے نیز اگر اللہ کسی کو اپنا رسول بنادے تو دوسرے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس پر اعتراض کرے اور اگر اللہ تعالیٰ کہے کہ رسول کی اطاعت تم پر فرض ہے۔ جو کچھ وہ کہے تمہیں کرنا ہوگا اور جس کام سے روکے اسے رک جانا ہوگا۔ اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی بات قبول نہیں کی جاسکتی تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ رسول کے افعال و اقوال پر اعتراض کرے۔ [٩٣]پیروں کواختیار بخشنے والے مریدان باصفا:۔ یعنی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات کو دوسروں میں تقسیم کرنا شروع کردیں۔ کسی کو بارش کا دیوتا سمجھنے لگیں کسی کو داتا اور گنج بخش بنا دیں۔ کسی کو بیماری و صحت کا مالک سمجھنے لگیں اور کسی کو فریاد رس اور دستگیر قرار دے لیں۔ غرضیکہ میرے اختیارات میں ان میں سے جو اختیار جسے چاہے سونپ دے۔ کوئی فرشتہ ہو یا جن ہو یا نبی ہو یا ولی ہو سب ہمارے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں اور انھیں اگر کچھ کمالات حاصل ہیں تو وہ بھی ہمارے ہی عطا کردہ ہیں پھر اس برگزیدگی کے آخر یہ معنی کیسے بن گئے کہ کسی مخلوق کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر اسے اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک بنا دیا جائے۔ یہ انہوں نے کیسے سمجھ لیا کہ ان کو بھی اللہ کے اختیارات تقسیم کرنے کا کچھ حق ہے؟