سورة القصص - آیت 61

أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جس آدمی سے ہم نے ایک اچھا وعدہ کررکھا ہے اور جو اسے مل کررہے گا، کیا وہ اس آدمی جیسا ہوگا جسے ہم نے دنیاوی زندگی کا سازوسامان دیا ہے پھر اسے قیامت کے دن جواب دہی کے لیے حاضر کیا جائے گا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٤]دنیاوی متاع کاحصول مذموم نہیں!الا یہ کہ اس میں اخروی نقصان ہو: ۔ اس آیت میں دو آدمیوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو آخرت کے بہتر انجام پر نظر رکھتا ہو اور اس بہتر انجام کے لئے ہی اپنی کوششیں صرف کر رہا ہو۔ دوسرا وہ شخص جس کا مطمح نظر صرف دنیوی مفادات اور ساز و سامان تک محدود ہو اور آخرت میں اس سے سختی سے باز پرس کی جانے والی ہو۔ اور سوال یہ اٹھایا گیا کہ خود ہی فیصلہ کرلو۔ ان دونوں میں سے کون بہتر ہے؟ اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے بعض لوگوں نے یہ غلط نتیجہ نکالا کہ شریعت کی نگاہ میں دنیا اور دنیا کے مفادات کا حصول مذموم چیز ہے اور اس سے حتی الوسع اجتناب کرنا چاہئے اور اپنی نظر صرف اخروی مفادات پر رکھنی چاہئے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دعا سکھلائی اور جسے رسول اللہ اکثر اوقات پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے : ﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ﴾(۲:۲۰۱) اس آیت میں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کا اللہ سے مطالبہ کیا گیا ہے۔ بلکہ دنیا کی بھلائی کا مطالبہ آخرت سے پہلے ہے۔ ان سب آیات کو ملانے سے جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں دنیا اور اس کا ساز و سامان صرف اس صورت میں مذموم ہوگا جب کہ اس سے اخروی مفادات کا نقصان ہو رہا ہو۔ مذموم چیز صرف یہ ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دی جائے۔ جب آخرت کا نقصان ہو رہا ہو تو اس وقت ایک مسلمان کا طرز عمل یہی ہوگا کہ دنیوی مفادات کو لات مار دے۔ بھلائی میسر آنے کےلحاظ سے انسانوں کی چار قسمیں :۔پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایک شخص نے اخروی انجام سے آنکھیں بند رکھی ہوں تاکہ وہ دنیوی مفادات تو حسب خواہش حاصل کرلے مگر اسے زندگی بھر سوائے غربت اور مصائب و مشکلات کے کچھ حاصل نہ ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کا مطمح نظر تو صرف اخروی مفادات ہو لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں بھی ہر طرح کی بے بہا نعمتوں اور ساز و سامان سے نواز دے۔ جیسا کہ بعض انبیاء بادشاہ وقت بھی تھے۔ اس لحاظ سے انسانوں کی چار قسمیں بن جاتی ہیں۔ ایک وہ جنہیں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی نصیب ہو اور یہ سب سے بہتر ہیں۔ دوسرے وہ جنہیں آخرت کی بھلائی تو نصیب ہو لیکن دنیا میں مشکل سے گزر بسر کریں۔ ان کا شمار بھی بہتر لوگوں میں ہے۔ تیسرے وہ جن کی آخرت تو خراب ہو مگر دنیا میں عیش و آرام مسیر ہو۔ یہ حقیقت میں برے لوگ ہیں اور چوتھے وہ جن کی دنیا بھی خراب اور آخرت بھی خراب ہو۔ ایسے لوگ ہر لحاظ سے بدترین ہوئے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں دوسری اور تیسری قسم کے لوگوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔