فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰ نے مدت پوری کرلی اور اپنے بال بچوں کولے کرچلے (١٥) تو انہوں نے طور پہاڑ کی طرف ایک آگ دیکھی، انہوں نے اپنے بال بچوں سے کہا یہیں ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، ہوسکتا ہے کہ میں تمہارے لیے (راستہ کی) کوئی خبر لاؤں، یا آگ کا ایک انگارہ، تاکہ تم اسے تاپو۔
[٣٩]دس سال بعد اپنے وطن کوروانگی:۔ اس معاہدہ کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نکاح کردیا۔ اور آپ وہاں متاہل زندگی گزارنے لگے۔ کہتے ہیں کہ جس لڑکی سے آپ کا نکاح ہوا اس کا نام صفورہ تھا۔ آپ نکاح کے بعد یہاں آٹھ کے بجائے دس سال ہی قیام پذیر رہے۔ پھر اپنے آبائی وطن مصر کی طرف جانے کے ارادہ سے اپنے اہل و عیال سمیت مدین سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک تو آپ کو اپنے والدین اور بہن بھائی سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ دوسرے آپ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ ممکن ہے لوگ اب تک واقعہ قتل کو بھول چکے ہوں، اس لئے اپنے ہی وطن جانا مناسب سمجھا۔ سیدنا موسیٰ کا راہ بھولنا:۔ راستہ میں جب آپ طور سینا کے دامن میں پہنچے تو اندھیری رات کی وجہ سے راستہ بھول گئے۔ سردی کا موسم اور شدید ٹھنڈی رات اور بال بچے ساتھ تھے۔ سخت پریشان ہوگئے۔ ایسے حال میں کوئی راہ بتلانے والا بھی نہیں مل رہا تھا۔ آخر دور سے انھیں ایک آگ نظر آئی جسے آپ نے غنیمت سمجھا اور خیال کیا کہ وہاں کوئی آگ جلانے والا تو ضرور ہوگا۔ لہٰذا اپنے اہل و عیال سے کہا تم یہیں ٹھہرو۔ میں اس آگ کے قریب جاتا ہوں۔ اگر کسی نے راستہ بتلا دیا تو فبھا ورنہ کچھ آگ کے انگارے ہی لے آؤں گا۔ تاکہ آپ لوگ اسے سینک سکیں۔ (یہ پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ طٰہ میں گزر چکا ہے)