قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
انہوں نے کہا میرے رب میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے اس لیے تو مجھے معاف کردے تو ان کے رب نے انہیں معاف کردیا، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا، بے حد مہربان ہے
[٢٦]قتل خطاپرسیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعائے مغفرت:۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ مقتول کوئی بڈھا اور کمزور سا انسان ہوگا اور پہلے ہی مرنے کے قریب ہوگا۔ اوپر سے موسیٰ جیسے طاقتور انسان کے ایک ہی مکا سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ ورنہ عام حالات میں کسی طاقتور کے مکے سے بھی کم از کم موت واقع نہیں ہوتی۔ اور سبطی سے تو وہ اس شہ پر لڑ رہا تھا کہ وہ حکمران قوم کا فرد تھا۔ اب موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں جو اس کی موت واقع ہوگئی تو یہ بہرحال قتل کا جرم تو تھا مگرنادانستہ طور پر ایسا ہوا تھا اس قتل خطا کے جرم کی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ جرم معاف فرما دیا۔ اس آیت میں غَفَرَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور غَفَرَ کا معنی معاف کرنا بھی ہے اور ڈھانپنا، چھپانا اور پردہ پوشی کرنا بھی اور مَغْفَرٌ اس خول کو کہتے ہیں جو سپاہی دوران جنگ سر پر رکھ لیتے ہیں۔ اور ان معنوں میں بھی اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ اس لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا مطلب یہ ہوگا کہ یاللہ! میرے اس جرم یا میری خطا پر پردہ ڈال دے تاکہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ یہی بات فرقہ وارانہ اشتعال کا باعث بن کر بنی اسرائیل پر کسی عظیم فتنہ کا پیش خیمہ بن جائے۔ اور بہتر یہی ہے کہ موسیٰ کی اس دعا کو دونوں معنوں پر محمول کیا جائے۔ چنانچہ واقعتاً اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی اس خطا پر پردہ ڈال دیا اور سوائے اس اسرائیلی کے جس کی آپ نے مدد کی تھی کسی کو بھی اس واقعہ کی خبر نہ ہوسکی۔