فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ۗ إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ
پس فرعون کے گھروالوں نے اسے سمندر سے نکال لیا تاکہ وہ ان کے دشمن اور ان کے رنج والم کاسبب بنے، بے شک فرعون اور ہامان اور ان دونوں لشکروں بڑے ہی خطاوار لوگ تھے
[١٢]سیدنا موسیٰ علیہ السلام فرعون کی بیوی کے پاس :۔ چنانچہ ام موسیٰ نے وحی کے مطابق اس بچہ کو کسی تابوت یا ٹوکرے میں رکھ کر دریائے نیل کی موجوں کے سپرد کردیا۔ یہ تابوت موجوں پر سفر کرتے کرتے جب اس مقام پر پہنچا جہاں فرعون کے محلات تھے تو فرعون کے اہل کاروں نے اسے دیکھ لیا اور اسے پکڑ کر فرعون اور اس کی بیوی کے سامنے پیش کردیا۔ یا ممکن ہے کہ فرعون اور اس کی بیوی سیر و تفریح کی غرض سے محل سے نکل کردیا کے کنارے آئے ہوئے ہوں اور انہوں نے خود یہ تابوت دیکھ کر اسے نکال لانے کا حکم دیا ہو۔ چنانچہ فرعون اور اس کی بیوی اس بچہ کو اپنے ہاں لے آئے۔ جو ان کا دشمن اور ان کی تباہی کا باعث بننے والا تھا۔ [١٣] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ ایک بچہ کے خطرہ کی بنا پر ہزار ہا بچوں کا قتل کردینا ان کی بہت بڑی غلطی اور حماقت تھی۔ اور ان کی یہ حماقت اس لحاظ سے اور بھی زیادہ واضح ہوگئی تھی کہ جس بچہ سے خطرہ کے سد باب کے لئے وہ یہ سفاکی کر رہے تھے وہ تو ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ خطاکار اس لحاظ سے تھے کہ وہ اپنی اس ظالمانہ تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو روکنا چاہتے تھے۔