إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
بے شک فرعون (٤) سرزمین مصر میں بہت متکبر ہوچلا تھا، اور وہاں کے رہنے والوں کو اس نے مختلف گروہوں میں بانٹ دیا تھا، ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو اس نے بہت ہی کمزور بنارکھا تھا ان کے لڑکوں کو ذبح کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا بے شک وہ بڑا ہی فساد برپا کرنے والا تھا
[٤] یعنی فرعون نے سر اٹھا رکھا تھا۔ اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھنے لگا تھا، لوگوں پر ظلم و زیادتی میں حد سے بڑھنے لگا تھا۔ اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر مکمل خود مختاری کے مقام تک لے گیا تھا اور سخت باغیانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔ بعد میں فرعون کا لفظ لغوی لحاظ سے متکبر، سرکش اور متمرد کے معنوی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ [٥]فرعون کی سیاسی پالیسی ۔۔۔قبطی اورسبطی کون لوگ تھے :۔ اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور مستحکم بنائے رکھنے کے سلسلہ میں اس کی سیاسی پالیسی یہ تھی کہ اس نے اپنی رعایا میں طبقاتی تقسیم پیدا کردی تھی۔ ایک تو اس کی اپنی قوم یا مصر کے قدیم باشندے تھے جنہیں قبطی کہتے ہیں اور یہ معزز طبقہ تھا۔ سرکاری مناصب بھی انھیں ہی مل سکتے تھے اور حکمران قوم ہونے کے ناطے سے ان کے حقوق کی ضرورت سے بھی زیادہ نگہداشت کی جاتی تھی۔ دوسرے بنی اسرائیل تھے۔ جو حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ یعنی تقریباً چار سو سال سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ اس وقت وہ حکمران قوم کی حیثیت سے آئے تھے لیکن ایک صدی بعد ہی ان میں جب بےدینی اور اخلاقی انحطاط شروع ہوگیا اور فرقوں میں بٹ گئے۔ تو اللہ نے ان سے حکومت چھین لی اور مصری لوگ پھر سے قابض ہوگئے۔ انہوں نے ان بنی اسرائیل سے انتقاماً اچھوتوں اور شودروں کا سا سلوک روارکھا ہوا تھا۔ معاشرہ میں ان کی کچھ عزت نہ تھی۔ کوئی سرکاری عہدہ انھیں نہیں مل سکتا تھا۔ یہ لوگ عموماً حکمران قوم کے افراد کے غلام، ملازم اور ان کی عورتیں بھی ان کے گھروں کا کام کاج کرتی تھیں۔ اس طرح فرعون نے عملاً ان لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ [٦] سبطیوں کی نسل کشی کےلیے فرعون کا اقدام:۔ مصر کی قومیت پرستی کی تحریک تو مدتوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور اسی کے نتیجہ میں بنی اسرائیل (یعنی قبطیوں) سے ایسا ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ تاہم فرعون رعمسیس نے اس کے لئے انتہائی قدم یہ اٹھایا کہ آئندہ سے بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکے کو قتل کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ لڑکیاں یا عورتیں تو از خود قبطیوں یا آل فرعون کے قبضہ میں آجائیں گی اور اس طرح کچھ مدت بعد بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم ہو کر مصریوں میں مدغم ہوجائے گی۔ چنانچہ فرعون کے اس حکم کی تعمیل کے لئے جاسوس قسم کی عورتیں مقرر کی گئی تھیں۔ جو بنی اسرائیل کے ہاں نوازائیدہ بچوں کی رپورٹ حکومت کو پیش کیا کرتی تھیں۔ اور یہ محض احتیاطی تدبیر تھی ورنہ بنی اسرائیل کے لئے آرڈر یہی تھا کہ وہ نوزائیدہ لڑکے کی اطلاع حکومت کو فراہم کریں اور وہ اس بات پر مجبور بھی تھے۔ فرعون کا خواب کہ ایک اسرائیلی اس کی حکومت کاخاتمہ کرے گا:۔ بعض تفاسیر میں منقول ہے کہ فرعون کو ایک پریشان کن خواب آیا تھا جس کی نجومیوں نے اسے تعبیر یہ بتلائی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعون اور اس کی حکومت تباہ ہوجائے گی اور فرعون نے اسی خطرہ کے سد باب کے لئے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کا یہ اقدام سراسر حماقت اور استبداد تھا۔ کیونکہ اگر نجومیوں کی یہ تعبیر درست تھی تو یہ کام ہو کے رہنا چاہئے تھا اور وہ ہو کے رہا۔ خواب یا اس کی تعبیر میں یہ اشارہ تک نہیں پایا جاتا کہ اگر فرعون اس خطرہ کا کوئی سدباب سوچ لے تو بچ سکے گا۔ اور اگر یہ تعبیر غلط تھی تو پھر ویسے ہی یہ ایک سفاکانہ حرکت تھی۔ بہرحال دونوں صورتوں میں اس کا یہ اقدام ظالمانہ اور وحشیانہ قسم کا تھا۔ اور جہاں اس واقعہ خواب یا اس کی تعبیر کا تعلق ہے، اس کی صحت اور عدم صحت کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اور یہ صورت نہ بھی ہوتی تو قومیت پرستی کی بنیاد پر حالات ایسے پیدا ہوچکے تھ کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو مکمل طور پر کچل دینے کے لئے یہی اقدام مناسب سمجھا۔ اور ابن کثیر اس خواب اور اس کی تعبیر کے واقعہ کی صورت حال یہ بتلاتے ہیں کہ بنی اسرائیل آپس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی ایک پیشین گوئی کا تذکرہ کیا کرتے تھے کہ ایک اسرائیلی نوجوان کے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی مقدر ہوگی۔ رفتہ رفتہ یہ بات فرعون کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ اس احمق نے قضا و قدر کی روک تھام کے لئے یہ سفاکانہ اسکیم جاری کی تھی۔