فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اب ان کے وہ گھر ان کے ظلم کی وجہ سے ویران پڑے ہیں، بیشک اس واقعہ میں ایک نشانی ہے ان کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔
[٥٢] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ وہی لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں جو ان کھنڈرات کو دیدہ بینا سے دیکھتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ جو اقوام عالم کے عروج و زوال کے قانون سے واقف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ قوم نے رسولوں کی تکذیب کی اور انھیں دکھ پہنچایا۔ وہ تباہ و برباد ہو کے رہی۔ تیسرے یہ کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو طبیعی اسباب کا پابند نہیں سمجھتے بلکہ یہ جانتے ہیں کہ طبیعی اسباب کا خالق وہ خود ہے اور ان میں جب چاہے رد و بدل بھی کرسکتا ہے اور سبب اور مسبب کا تعلق توڑ بھی سکتا ہے۔ ظاہری اور باطنی سب اسباب اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ یوں نہیں کہہ دیتے کہ فلاں عذاب مثلاً زلزلہ تو محض طبیعی اسباب کی بنا پر آیا تھا اس کا لوگوں کے گناہوں سے کیا تعلق؟