وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ
اور اسے ایمان لانے سے اب تک اس بات نے روک رکھا تھا کہ وہ اللہ کے سوا غیروں کی عبادت کرتی تھی، وہ بیشک کافروں میں سے تھی۔
[٤١] اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد سمجھایا جائے۔ جیسا کہ ترجمہ میں بیان ہوا ہے اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا کہ چونکہ اسے ماحول کافرانہ اور مشرکانہ ملا تھا۔ لہٰذا وہ بھی قوم کی دیکھا دیکھی سورج کی پرستش کرنے لگی تھی۔ ورنہ اگر وہ کچھ بھی عقل سے کام لیتی تو ایسے شرک میں مبتلا نہ ہوتی۔ اور دوسرا مطلب ہے کہ اس جملہ کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا فعل تسلیم کیا جائے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو ان تمام چیزوں کی پرستش سے روک دیا جن کی وہ اپنے زمانہ کفر میں پرستش کیا کرتی تھی۔