سورة النمل - آیت 41

قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

انہوں نے (اپنے لوگوں سے) کہا (١٥) تم لوگ ملکہ کے تخت کی ظاہری شکل بدل دو ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اسے پہنچاتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہے جو اتنی سمجھ نہیں رکھتے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٩]سیدنا سلیمان علیہ السلام کا ملکہ کے تخت کی صورت بدل دینا:۔ یہاں ﴿نَكِّرُوا ﴾کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ نکر میں جو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) اجنبیت اور (٢) ناگواری، اور تنکیر کی ضد تعریف ہے۔ تعریف کے معنی کسی کو پہچان لینا اور تنکیر کے معنی کسی کو نہ پہچاننا اور اجنبیت محسوس کرنا۔ گویا﴿نَكِّرُوا ﴾کا معنی اس تخت میں ایسی تبدیلی لانا ہے جس سے وہ پوری طرح پہچانا نہ جاسکے اور اس سے حضرت سلیمان علیہ السلام بلقیس کی عقل کا امتحان لینا چاہتے تھے کہ اس کی عقل کہاں تک کام کرتی ہے پھر اس سے وہ یہ نتیجہ بھی اخذ کرنا چاہتے تھے کہ آیا وہ اتنی عقلمند ہے کہ شرک اور توحید میں تمیز کرسکے؟ چنانچہ آپ کے کاریگروں نے اس کے تخت میں اتنی تبدیلی کی ایک جگہ کے جواہر وہاں سے اکھاڑ کر کسی دوسرے جگہ فٹ کردیئے۔