فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ
سلیمان اس کی بات پر مسکرا کر کہنے لگے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کرو جو تو نے مجھے اور میرے باپ ماں کو دی ہیں، اور ایسا نیک کام کروں جسے تو پسند کرا ہے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے بندوں میں شامل کردے۔
[٢١] چیونٹی کی فریاد اور سیدناسلیمان علیہ السلام کی دعائے استسقاء :۔ آپ چیونٹی کی یہ بات سمجھ کر، فرط سرور و انبساط سے، ہنس دیئے اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ پھر دست بدعا ہو کر فرمایا : پروردگار! مجھے ان نعمتوں کے شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام لوگوں کے ہمراہ نماز استسقاء کے لئے ایک میدان کی طرف نکلے۔ وہاں ایک چیونٹی کو دیکھا جو چت لیٹ کر اور اپنے پاؤں اوپر اٹھائے ہوئے اللہ سے دعا کر رہا تھی کہ یا اللہ! میں بھی تیری مخلوق ہوں اگر تو کھانے پینے کو نہ دے گا تو میں کیسے زندہ رہ سکتی ہوں یا ہمیں کھانے کو دے یا مار ڈال۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی یہ دعا سن کر لوگوں سے فرمایا : اب اپنے اپنے گھروں میں لوٹ جاؤ۔ ایک چیونٹی نے تمہارا کام پورا کردیا۔ اب ان شاء اللہ بارش ہوگی۔( دارقطنی بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الاستسقاء فصل ثالث ) [٢٢] وَزَعَ کالغوی مفہوم :۔ یہاں ﴿أَوْزِعْنِي﴾ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور وَزَعَ کا لغوی معنی روکتا یا روکے رکھتا ہے۔ اور وزع الجیش یعنی فوج کو ترتیب وار صفوں میں رکھنا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام دعا یہ فرما رہے ہیں کہ جس قدر تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعامات کی بارش کی ہے۔ اس پر کہیں میرا نفس بے قابو اور بے لگام ہو کر سرکشی کی راہ نہ اختیار کرلے۔ جیسا کہ عموماً اللہ کی طرف سے انعامات کی فراوانی اکثر لوگوں کے ذہنوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ مجھے ایسے لوگوں اور ایسی ذہنیت سے روکے رکھنا اور اس بات کی توفیق عطا فرما کہ میں ان نعمتوں پر تیرا شکر گزار بندہ بنوں اور وہی کام کروں جو تجھے پسند ہیں۔ چیونٹی کی بات کرنے کی تاویل ؟عقل پرستوں نے اس وادی نمل کے قصہ میں بھی اپنی عقل کی جولانیاں دکھاوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وادی نمل فلاں مقام پر ایک بستی کا نام ہے اور نمل ایک قبیلہ کا نام تھا۔ اس کے افراد بھی نمل کہلاتے تھے۔ سلیمان علیہ السلام کا لاؤ لشکر دیکھ کر ایک نملہ نے دوسرے نملہ سے یہ بات کہی تھی کہ اس تاویل یا تحریف میں جتنا وزن ہوسکتا ہے۔ وہ ان آیات کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھ لیجئے کہ آیا اس تاویل میں کچھ معقولیت نظر آتی ہے۔