وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
اور سلیمان داؤد کے وارث (٩) ہوئے، انہوں نے کہا، اے لوگو ! ہمیں چڑیوں کی بولی کا علم دیا گیا ہے اور ہمیں ہر چیز دی گئی ہے بیشک یہ اللہ کا نمایاں فضل ہے۔
[١٦] یہاں وراثت سے مراد حضرت داؤد علیہ السلام کے ذاتی مال و دولت کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور جہاں بانی کی وراثت مراد ہے۔ [١٧] سیدنا سلیمان علیہ السلام کاجانوروں کی بولی سمجھنا اور اللہ کاشکراداکرنا:۔ اللہ تعالیٰ کی حیران کن قدرتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تمام انسان ایک ہی جیسی شکل رکھتے ہیں۔ ہر شخص کی ایک ناک، دو کان، دو آنکھیں، دوبازو اور دو پاؤں ہوتے ہیں لیکن اس قدر یکسانیت کے باوجود ہر ایک کی شکل دوسرے سے مختلف ہوتی ہے پھر ایک شخص کے اگر چھ لڑکے ہیں تو دوسرے لوگ یہ توبتلا سکتے ہیں ان سب میں یک گونہ مشابہت پائی جاتی ہے مگر ان میں تمیز صرف والدین اور قریبی رشتہ دار ہی یا دوست احباب ہی کرسکتے ہیں۔ پھر یہ اختلاف صرف شکل و صورت تک محدود نہیں۔ ہر انسان کی بولنے کی آواز کھانسنے کی آواز حتیٰ کہ پاؤں کی چاپ اورچلنے کی چال میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ قریبی لوگ کسی کے بولنے، کھانسنے یا چال ڈھال سے ہی یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے۔ بالکل ایسا ہی سلسلہ جانوروں اور پرندوں میں بھی ملتا ہے۔ جانوروں اور پرندوں کی بھی ایک بولی ہے۔ جسے انسان سمجھ نہیں سکتے مگر وہ آپس میں خوب سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک پرندہ جب اپنے جوڑا کو بلاتا یا دانہ دینے کے لئے اپنے بچوں کو بلاتا یا انھیں کسی خطرہ سے آگاہ کرتا ہے تو ان تمام صورتوں میں اس کی بولی اور لب و لہجہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اور اس فرق کو اس کے مخاطب پوری طرح سمجھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور جب یہ پرندے مل کر عموماً صبح کے وقت چہچہاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہم ان مختلف حالات میں ان کی بولی میں تمیز نہیں کرسکتے، لیکن وہ آپس میں خوب سمجھتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک ٹیلیگراف ماسٹر جب تار کے ذریعہ کوئی پیغام بھیجتا ہے تو آپ خواہ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھے رہیں۔ کھٹ کھٹ اور ٹک ٹک کی بے معنی آوازوں کے سوائے آپ کے کچھ پلے نہیں پڑے گا۔ لیکن اس فن کو جاننے والا شخص فوراً بتلادے گا کہ یہ پیغام فلاں جگہ پر فلاں آدمی کے نام ہے اور اس پیغام کا مضمون یہ ہے۔ ہرچیزتسبیح کرتی ہے :۔ پھر یہ بات صرف انسانوں، جانوروں اور پرندوں تک ہی محدود نہیں بلکہ حشرات الارض، نباتات اور جمادات تک میں احساسات کا یہ سلسلہ چلتا ہے اور یہ سب اشیاء اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں مگر اسے ہم سمجھ نہیں سکتے (١٧: ٤٤) اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پرندوں کی بولی بول سکتے تھے بلکہ یہ ہے کہ پرندے وغیرہ آپس میں ایک دوسرے سے جو باتیں کرتے ہیں انھیں آپ سمجھ جاتے تھے۔ پھر آپ جو کچھ کہنا چاہتے پرندے بھی اسے سمجھ جاتے تھے۔ اور دوسری نعمت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضرورت کی تمام چیزیں ہمیں مہیا فرما دی ہیں۔