فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ
اگر تم ایسا نہ کرسکو، اور تم ہرگز ایسا نہ کرسکو گے، تو ڈروا اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے، جو تیار (45) کی گئی ہے کافروں کے لیے
[٢٨] جہنم کا ایندھن کون سی اشیاء ہوں گی؟ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی علم تھا کہ ایسا کلام پیش کرنا انسان کے بس سے باہر ہے اور یہ جو پانچ مرتبہ قرآن میں کفار کو چیلنج کیا گیا ہے تو یہ ان پر اتمام حجت کے لیے ہے کہ اگر ان واضح دلائل کے بعد کوئی کفر پر اڑا رہتا ہے تو اسے اس دوزخ کے عذاب سے ڈر جانا چاہیے۔ جس کا ایندھن انسان ہی نہیں معدنی پتھر (جیسے پتھری کوئلہ، گندھک) وغیرہ بھی ہوں گے جو آگ کی حدت کو بیسیوں گنا تیز کردیتے ہیں۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ اس آیت میں حجارۃ سے مراد پتھر کے وہ بت ہیں جن کی پوجا کی جاتی رہی اور اس قول کی تائید اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔ ﴿ اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ﴾( ۹۸:۲۱)”تم بھی اور اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو سب دوزخ کا ایندھن بنو گے۔“ تاکہ کافروں کو اپنے معبودوں کی خدائی کی حقیقت معلوم ہو سکے اور ان کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔ [٢٨۔ الف] تقوی کا لغوی مفہوم :۔ اتقاء یا تقویٰ کا معنی اپنے اعمال کے انجام سے ڈر جانا ہے۔ اور اس کے مادہ وَ قَ یَ میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں : (١) ڈرنا۔ (٢) بچنا۔ (٣) پرہیز کرنا۔ گویا تقویٰ کے معنی اپنے نفس کو ہر اس چیز سے بچانا ہے جس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اور شرعی اصطلاح میں اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بچانے کا نام تقویٰ ہے جو گناہ کا موجب ہو۔ اور جن امور سے شریعت نے منع کیا ہے انہیں چھوڑنے سے یہ بات حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر تقویٰ کا مفہوم محض نواہی کو چھوڑنے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اوامر کی بجاآوری کو بھی اپنے اندر شامل کرلیتا ہے۔ کیونکہ جیسے بے حیائی کے کام کرنا گناہ ہے ویسے ہی نماز یا روزہ وغیرہ ادا نہ کرنا بھی گناہ ہے۔ اور تمام تر عبادات کا بنیادی مقصد انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے یعنی وہ ہر کام کے کرنے سے پہلے اس کا انجام سوچتا ہے اور اس انجام کو ملحوظ رکھ کر اسے اختیار کرتا یا چھوڑتا ہے۔ اور چونکہ انجام سے دو چار کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا تقویٰ کے مفہوم میں گناہوں کے انجام سے ڈرنے اور بچنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے ڈرنا اور ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا از خود شامل ہوجاتا ہے۔ [٢٩] اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ وجود میں لائی جا چکی ہے (اور اسی طرح جنت بھی) اور یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ جبکہ بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ جنت اور دوزخ عالم آخرت میں جزا و سزائے اعمال کے وقت تیار کئے جائیں گے۔