إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان (٦٠) لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا اور اللہ کو خوب یاد کیا، اور ان پر ظلم ہوا تو صرف بدلہ لے لیا، اور عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کہ وہ کس انجام کو پہنچیں گے۔
[١٣٧]کون سے شعراء اس کلیہ سےمستثنیٰ ہیں ؟ یعنی جن شعراء کی عام مذمت بیان کی گئی۔ ان میں سے مندرجہ ذیل چار خصائل والے شعراء مستثنیٰ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایمان لائے ہوں۔ دوسرے انہوں نے نیک اعمال کو اپنا طرز زندگی بنا لیا ہو۔ تیسرے اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہتے ہوں۔ کسی وقت بھی ان کے دل اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ چوتھے یہ کہ جو کچھ کہیں ظالموں کے مقابلہ میں حق کی حمایت کے شعر کہیں۔ کسی کی ہجو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت نہ کریں۔ مثلاً اشعار کے ذریعہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں۔ نیکی کی ترغیب دیں۔ کفر کی اور گناہوں کی مذمت بیان کریں یا اگر کافر مسلمانوں یا اسلام یا پیغمبر اسلام کی ہجو بیان کریں۔ تو ہجو کا اسی طرح جواب دے کر اس ظالم کا بدلہ لے لیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش نے مسلمانوں کی ہجو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا کہ ان کی ہجو کا جواب دو۔ کیونکہ ہجو قریش کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ سے ہجو کرنے کو کہا۔ لیکن ان کی ہجو آپ کو پسند نہ آئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک سے کہا پھر حسان بن ثابت سے ہجو کرنے کا کہا اور ساتھ ہی یہ بتلا دیا کہ ذرا دھیان رکھنا میں بھی قریش سے ہوں۔ حضرت حسان کہنے لگے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کے بھیجا۔ میں آپ کو قریش میں سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان کے حق میں دعا کی یا اللہ اس کی روح القدس سے مدد کر۔ نیز فرمایا حسان! جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کے طرف سے جواب دیتا رہے گا روح القدس تیری مدد کرتا رہے گا۔ نیز فرمایا : حسان نے قریش کی ہجو کرکے مومنوں کے دلوں کو تسکین دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کردیا( مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل حسان بن ثابت ) اس کے بعد حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا طویل قصیدہ مسلم شریف میں مذکور ہے۔ [ ١٣٨] یعنی وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کاہن اور شاعر یا ساحر اور مجنون قرار دیتے تھے تاکہ دعوت دین اسلام میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرکے حق کو نیچا دکھلا سکیں۔