فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا نَادِمِينَ
لیکن انہوں نے اس کے پاؤں کاٹ (٤١) دیئے اور پھر (اللہ کا عذاب دیکھ کر) اپنی حرکت پر پشیمان ہوئے
[٩٦] لیکن یہ لوگ زیادہ مدت تک اس پابندی کو برداشت نہ کرسکے۔ چوری چھپے باتیں کرتے اور دل ہی دل میں اس پابندی سے کڑھتے رہتے تھے۔ پھر جب ان کے ایمان نہ لانے پر بھی اللہ کا عذاب نہ آیا تو وہ کچھ دلیر ہوگئے۔ ان میں ایک بدکار عورت تھی جس کے بہت سے مویشی تھے اور خاصی مالدار تھی۔ اس نے اپنے آشنا کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اس اونٹنی کا قصہ پاک کردے۔ چنانچہ اب اونٹنی کو مار ڈالنے کے سلسلہ میں خفیہ مشورہ ہونے لگے۔ مویشیوں کے لئے پانی اور چارے کے آدھا رہ جانے کی وجہ سے سب لوگ ہی اس اونٹنی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ لہٰذا سب نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ چنانچہ وہی بدبخت زانی اس کام کے لئے تیار ہوگیا۔ چنانچہ عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا اور اس شخص کا ذکر کیا جس نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ شخص اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ وہ ایک زور آور، شریر اور مضبوط شخص تھا جو اپنی قوم میں ابو زمعہ( زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے چچا ) کی طرح تھا اور اس کا نام قعار تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الشمس)