وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور تم لوگ اسے کوئی نقصان نہ پہنچاؤ، ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔
[٩٥]اونٹنی کے پانی پینے کی باری قوم نے کیوں تسلیم کی ؟ عرب جیسے بے آب و گیا ملک میں پانی کی ہمیشہ کمی ہی رہی ہے اور پانی کا مسئلہ نہایت اہم مسئلہ تھا۔ لہٰذا صالح علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک دن صرف یہ اللہ کی اونٹنی فلاں کنوئیں سے پانی پیا کرے گی۔ اس دن قوم کے جانور پانی پینے کے لئے ادھر نہ جائیں اور دوسرے دن قوم کے جانور پانی پیا کریں گے اور اونٹنی ادھر نہیں جائے گی۔ صالح علیہ السلام کا یہ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق تھا۔ جسے قوم نے تسلیم کرلیا۔ مگر اس تسلیم کے پیچھے ان کی اپنی رضا کو کچھ دخل نہ تھا۔ بلکہ وہ یہ فیصلہ تسلیم کرنے پر مجبور تھے۔ اور اس کی دو وجوہ تھیں ایک یہ کہ فیصلہ کے ساتھ ہی صالح علیہ السلام نے یہ وارننگ بھی دے دی تھی کہ اگر تم لوگوں نے اس اونٹنی کو کوئی دکھ پہنچایا یا اس کے آزادی سے چرنے چگنے اور پانی پینے میں حائل ہوئے تو تم پر اللہ کا عذاب آجائے گا اور دوسرے یہ کہ یہ اونٹنی کا معجزہ دیکھنے کے بعد انھیں یہ یقین ہوچکا تھا کہ صالح علیہ السلام واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ لہٰذا وہ ان پر ایمان لانے کے باوجود ان کی تنبیہ سے خائف تھے۔