قَالَ كَلَّا ۖ فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا ۖ إِنَّا مَعَكُم مُّسْتَمِعُونَ
اللہ نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہوگا، آپ دونوں میرے معجزات لے کر جایئے بیشک ہم آپ کے ساتھ ہوں گے، آپ سب کی گفتگو سنیں گے۔
[١١] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اللہ سے گزارشات اور ان کی قبولیت:۔ موسیٰ علیہ السلام کی اس التجا اور ان خطرات کے جواب میں فرمایا : کہ (1) تمہاری التجا منظور ہے، میں ہارون کو نبوت عطا کردیتا ہوں اور وہ تمہارے ساتھ رہے گا اور اس کام میں تمہارا مددگار ہوگا، (2) تمہیں جو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ ڈالیں تو اس بات کو دل سے نکال دو۔ وہ لوگ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے۔ اور اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ تمہیں دو ایسے معجزات دے کر بھیجا جا رہا ہےجو اس بات کا یقینی ثبوت پیش کرتے ہیں کہ تم فی الواقع اللہ کے رسول ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تم دونوں کے سات تیسرا میں بھی ہوں۔ میں تمہاری سب باتیں سنتا ہوں اور تمہاری پوری پوری نگہداشت بھی کروں گا۔ اللہ کی معیت کی مثال اور معتزلہ اور جہمیہ کا رد:۔ اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے جہمیہ نے استدلال کیا کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے اور جن آیات میں اللہ کے مستوی علی العرش ہونے کا ذکر تھا ان آیات کی تاویل کر ڈالی۔ حالانکہ جن آیات میں اللہ کی معیت یا اس کے قریب ہونے کا ذکر ہے تو ایسی معیت یا قربت ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ صفات کے لحاظ سے ہے۔ اس کی ایک معمولی سی مثالی یوں سمجھئے کہ سورج اور چاند اللہ کی بے جان اور ادنیٰٰ سے مخلوق ہے۔ جو مسافر کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ چلنے والا جہاں تک چلے وہ ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ آسمان پر ہیں اور انسان لاکھوں اور کروڑوں میل دور ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ہونے کے باوجود اپنے علم، اپنی قدرت اور مدد کے لحاظ سے ہر انسان سے بالکل نزدیک ہے اور اس کی صحیح کیفیت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔