وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا
اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ (اپنے آپ کو) تنگی میں ڈالتے ہیں اور اپنی گزر اوقات دونوں کے درمیان کرتے ہیں۔
[٨٤]اسراف وتبذیرمیں فرق :۔ اسراف کا اطلاق ضرورت کے کاموں سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے۔ مثلاً اپنے سامان خوردو نوش یا کپڑوں پر یا مکان پر یا شادی بیاہ پر بھی بےدریغ خرچ کردینا یا اپنی ہمت اور مقدور سے زیادہ خرچ کردینا۔ ایسی فضول خرچیوں سے اسلام نے سختی سے روک دیا ہے۔ پھر اسراف کی ایک قسم ایسی ہے جسے تبذیر کہتے ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ناجائز کاموں یا ناجائز ضرورتوں پر خرچ کرنا۔ جیسے شراب نوشی، قمار بازی، بیاہ شادی کے موقعہ پر آتش بازی اور راگ رنگ وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ چہ جائیکہ ایسے کاموں پر بھی بےدریغ اور بے تحاشا خرچ کردیا جائے۔ اسراف کی ضد بخل ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ مقدور ہوتے ہوئے بھی ضرورت کے کاموں میں پیسہ ضرورت سے کم خرچ کرنا اور پیسہ کو جوڑ کر رکھنا۔ جیسے اپنی ذات پر اور اپنے بال بچوں کی گزاران کے سلسلہ میں بھی بخل کر جانا۔ خوراک میں پوشاک میں، طرز بودوباش میں، اعز و اقرباء کو تحفے تحائف دینے لینے ہر جگہ بخل سے کام لینا اور بالخصوص جب اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنا پڑے تو اسے یوں محسوس ہو کہ پیسہ کے ساتھ اس کی اپنی جان بھی نکلی جارہی ہے۔ اقتصاد کیاہے؟ اسراف اور بخل کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاء یا قصد ہے اور اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔ اقتصاد یہ ہے کہ انسان اپنی جائز ضرورتوں پر خرچ اور اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضرور ہو نہ کم نہ زیادہ۔ حتیٰ کہ اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو تو بھی یہی بات مدنظر رکھنی چاہئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد انسان خود محتاج نہ ہوجائے۔ ( بخاری۔ کتاب النفقات۔ باب وجوب النفقۃعلی الأہل و العیال ) اور اعتدال کی روش اختیار کرنے کے بعد اگر کسی کے پاس مال بچ رہتا ہے تو اسے اپنے اقرباء اور دوسرے حاجت مندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرنا چاہئے۔