إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۚ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا
قریب تھا کہ یہ شخص ہمیں ہمارے معبودوں سے دور کردیتا، اگر ہم ان کے بارے میں ثابت قدم نہ رہے ہوتے، اور جب وہ لوگ عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون سب سے زیادہ گمراہ تھا۔
[٥٤]کفار کی بوکھلاہٹ اور خود اپنی تردید :۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جو کلام یہ پیش کرتا ہے اس میں جادو کا اثر ہوتا ہے۔ جو بڑے بڑوں کے قدم پھسلا سکتا ہے اور سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتا ہے۔ اور اگر ہم لوگ پوری مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے اپنے باپ دادا کے دین پر جمے نہ رہتے تو اس نے تو کب سے ہمیں اپنے معبودوں سے برگشتہ کردیا ہوتا۔ اب دیکھئے اس نبی کی دعوت سے کچھ اس طرح بوکھلائے ہوئے تھے کہ خود ہی اپنی باتوں کی تردید بھی کرتے جاتے تھے۔ ایک طرف تو وہ یہ استہزاء کرتے تھے کہ آخر اس نبی میں کیا خوبی ہے کہ اللہ نے اسے ہی اپنی رسالت اور نبوت کے لئے منتخب کیا ہے؟ پھر ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ البتہ اس نبی میں یہ خوبی ضرور ہے کہ اس کا پیش کردہ کلام اس قدر پر تاثیر اور زور دار ہے۔ جس کا اثر ہر ایک کے دل کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے وہ تو ہم ہی تھے جو اپنے دین پر ایسے پکے اور ثابت قدمی سے جمے رہے اور اس کے کلام کا اثر قبول نہیں کیا۔ ورنہ یہ سب کو اپنے دام تزویر میں پھنسا چکا ہوتا۔ قریش کی ان دو متضاد باتوں سے ضمناً چند باتیں معلوم ہوتی ہیں : ایک یہ کہ رسالت کے لئے جو خوبیاں درکار ہوتی ہیں وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود تھیں۔ آپ اللہ کا کلام جس انداز میں پیش کرتے تھے اور اس کا نمونہ اپنی ذات سے پیش کرتے تھے وہ عام لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے بہت کافی تھا۔ دوسرے یہ کہ کفار دلائل کے میدان میں مات کھاچکے تھے۔ اب ان کا انکار محض ضد، ہٹ دھرمی اور تقلید آباء کی بنا پر تھا۔