سورة الفرقان - آیت 22

يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَىٰ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جس دن وہ لوگ فرشتے کو دیکھ (١٠) لیں گے اس دن مجرموں کو کوئی خوشی نہیں ہوگی اور کہیں گے کہ یہ ہم سے دور رہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣١] ان کے فرشتوں کے دیکھنے کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ دو دنیا میں اور ایک آخرت میں۔ دنیا میں ایسے لوگ اس وقت فرشتوں کو بچشم خود دیکھ لیتے ہیں جب وہ ان پر قہر الہٰی اور عذاب الہٰی لے کر نازل ہوتے ہیں۔ دوسرے اس وقت جب وہ ان کی جانیں نکالنے کے لئے ان کے پاس آئیں گے اور قیامت میں تو یہ ہر وقت ہی فرشتوں کو دیکھا کریں گے۔ جو بھی وقت اور جو بھی صورت ہو، ان کے لئے کوئی خوشی کی بات نہ ہوگی بلکہ جب بھی وہ ان کے پاس آئیں گے قہر الہٰی بن کر ہی آئیں گے۔ [ ٣٢]فرشتوں کودیکھنے کی تین صورتیں :۔ یہ محاورہ ہے۔ حجارۃبمعنی پتھر اور حجر ہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو پتھر کی طرح سخت بھی ہو اور روک یا آڑ کا کام بھی دے۔ اہل عرب کی عادت تھی کہ جب اپنے کسی دشمن کو، جس سے انہیں تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہوتا، دیکھ کر، یا کسی دوسری آفت کو دیکھ کر حجرا محجورا کہنے لگتے۔ جیسے ہم کہتے ہیں ”اس سے اللہ کی پناہ“ ” یا“اللہ اس سے ہمیں بچائے“ تو سننے والا عموماً یہ قول سن کر تکلیف نہیں پہنچاتا تھا۔ ایسے مجرمین بھی جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے تو یہی الفاظ بول کر ان سے پناہ مانگیں گے لیکن اس دن انھیں کوئی پناہ نہ مل سکے گی۔