سورة الفرقان - آیت 3

وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور مشرکوں نے اللہ کے سوا بہت سے معبود بنا لیے (٣) ہیں، جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے ہیں، بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور اپنے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ہیں، اور نہ موت اور نہ زندگی اور نہ دوبارہ زندہ کرنا ان کے اختیار میں ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے الوہیت کے کئی معیار بیان فرمائے ہیں اور مشرکوں کو عام دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو ان معیاروں پر جانچ کر دیکھیں اور پھر بتائیں کہ آیا ان کے معبودوں میں الوہیت کا کوئی شائبہ تک بھی پایا جاتا ہے مثلاً (١) جو ہستی کوئی چیز پیدا نہ کرسکے یا کسی بھی چیز کی خالق نہ ہو۔ وہ معبود نہیں ہوسکتی۔ (٢) جو چیز خود پیدا شدہ ہو یا مخلوق ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جو چیز پیدا ہوئی ہے وہ فنا بھی ضرور ہوگی۔ اور فنا ہونے والی چیز الٰہ نہیں ہوسکتی۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ مشرکوں کے معبود خواہ وہ بت ہوں جنہیں انہوں نے خود ہی گھڑ رکھا ہے یا فرشتے ہوں یا کوئی اور چیز مثلاً: سورج، چاند، تارے، شجر، حجر ہوں۔ یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوق ہیں۔ لہٰذا ان میں کوئی چیز بھی الوہیت کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ (٣) جو ہستی کسی دوسرے کو فائدہ یا نقصان نہ پہنچا سکتی ہو بالفاظ دیگر وہ حاجت روا یا مشکل کشا نہ ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ صفات ہیں جنہیں مشرکین اللہ کے سوا بعض دوسری ہستیوں میں( خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان، زندہ ہوں یا مرچکی ہوں ) تسلیم کرتے ہیں اور شرک کی یہی قسم سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ : (٤) الوہیت کے سلبی معیار :۔جو چیز اپنے ہی نفع و نقصان کی بھی مالک نہ ہو، وہ دوسرے کسی کی حاجت روا یا مشکل کشا نہیں ہوسکتی۔ اور یہ معیار بھی ایسا معیار ہے جس کے مطابق اللہ کے سوا تمام تر معبود باطل قرار پاتے ہیں۔ پتھر کے معبودوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تور پھوڑ ڈالا۔ تو وہ ان کا بال بیکا نہ کرسکے۔ رہے بزرگان دین( خواہ وہ پیغمبر ہو یا ولی، زندہ ہو یا فوت ہوچکے ہوں) سب کو ان کی زندگی میں بے شمار تکلیفیں پہنچتی رہیں لیکن وہ اپنی بھی تکلیفیں اور بیماریاں خود رفع نہ کرسکے تو دوسروں کی کیا کرتے یا کیا کریں گے۔ اس لئے بس وہ اللہ سے دعا ہی کرتے رہے۔ رہے شمس و قمر، تارے اور فرشتے تو یہ سب ایسی مخلوق ہیں جنہیں اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ نے انہیں جس کام پر لگا دیا ہے اس کے سوا وہ کوئی دوسرا کام کر ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا وہ بھی الوہیت کے معیار پر پورے نہیں اتر سکتے۔ (٥) الوہیت کا پانچواں معیار یہ ہے کہ وہ ہستی کسی زندہ چیز کو مار بھی سکتی ہو اور مردہ چیز کو زندہ بھی کرسکتی ہو۔ اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر وقت زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ چیزیں پیدا کر رہا ہے۔ اور دوسرے معبودوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے چیلنج کے طور پر فرمایا کہ وہ ایک حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے جبکہ ان کی عاجزی کا یہ عالم ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ سب مل کر اس سے اپنے سلب شدہ چیز چھڑا بھی نہیں سکتے اور مردوں کو زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرنا تو اور بھی بڑی بات ہے۔ اس مقام پر الوہیت کے یہی معیار بیان کئے گئے ہیں جبکہ بعض دوسرے مقامات پر اور بھی کئی معیار مذکور ہیں : مثلاً جو خود محتاج ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ جو بے جان ہوں الٰہ نہیں ہوسکتا، جو کھانا کھاتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا، جو نہ سن سکتا ہو نہ دیکھ سکتا ہو یا جواب نہ دے سکتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ وغیرہ وغیرہ