وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور وہ بوڑھی عورتیں (٣٥) جنہیں نکاح کی خواہش نہ رہی ہو، ان کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ اپنے دوپٹے وغیرہ اتار کر رہیں، بشرطیکہ وہ اپنی زینت نہ دکھاتی پھریں اور اس سے بھی پرہیز کریں تو ان کے لیے بہتر ہے، اور اللہ بڑا سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
[٩٠]قواعد کا لغوی مفہوم:۔ قواعد کا لفظ قاعدہ اور قعیدہ دونوں کی جمع ہے۔۔ قاعدہ بمعنی بنیاد اور قواعد بمعنی بنیادیں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ (٢: ١٢٧) اور قعد کے معنی بیٹھنا بھی، بیٹھ رہنا اور کوئی کام نہ کرنا بھی اور کسی کام کے لئے تیار ہو بیٹھنا بھی ہے۔ اورقعیدہ کا دوسرے معنی سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جو ازدواجی زندگی کے کام کاج سے فارغ ہوچکی ہوں۔ یعنی سن یاس کو پہنچ چکی ہوں اور اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہی ہوں اور جن کی جنسی خواہشات مر چکی ہوں اور اگر کوئی مرد انھیں دیکھے تو اس کے صنفی جذبات میں تحریک پیدا نہ ہو یعنی بوڑھی کھوسٹ عورتیں۔ [٩١]ستروحجاب میں فرق۔مرد اور عورت کےمقامات ستر:۔ یہاں ثِیَابَھُنَّ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ اپنے بدن کے سب کپڑے اتار سکتی ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ان سے حجاب کی پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔ لیکن ستر کی پابندیاں بدستور بحال رہتی ہیں۔ ستر اور حجاب میں فرق یہ ہے کہ ستر ان اعضاء کو ڈھانپ رکھنے کا نام ہے جن کا ڈھانپنا ہر حال میں ضروری ہے کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہا ہو۔ مرد کا مقام ستر ناف سے لے گھٹنے تک ہے۔ اور عورت کے مقام ستر اس کا سارا جسم ہے ماسوائے ہاتھوں اور چہرہ کے۔ مرد اپنے مقامات ستر اپنی بیوی کے سوا کسی کے سامنے کھول نہیں سکتا اور نہ ہی عورت اپنے ستر کے مقامات اپنے خاوند کے سوا کسی دوسرے کے سامنے کھول سکتی ہے۔ ان احکام میں اگر گنجائش ہے تو صرف یہ ہے کہ عورت اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے کسی ضرورت کے تحت جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے جیسے فرش دھوتے وقت پائنچے اوپر چڑھا لینا یا آٹا گھوندتے وقت کف اوپر چڑھا لینا وغیرہ اور مقام ناف سے لے کر گھٹنے تک کے مقامات ستر تو ایسے ہیں جنہیں کوئی عورت کسی عورت کے بھی سامنے کھول نہیں سکتی۔ مزید تفصیل کے لئے میری تصنیف ” احکام ستروحجاب“ملاحظہ ہو۔ بوڑھی عورتوں کوحجاب کے احکام سے رخصت کی مشروط اجازت: ۔ اور یہاں جو بڑھی بوڑھیوں کو کپڑے اتارنے کی اجازت ہے تو اس سے مراد کپڑے ہیں جو ستر سے متعلق نہیں بلکہ حجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور وہ دو ہیں ایک دوپٹہ جس سے عورتوں کے سر پر رکھنے اور اس سے اپنے گریبان ڈھانپے رکھنے کا حکم ہے اور اس کا تعلق گھر کے اندر کی دنیا سے ہے اور دوسرے بڑی چادریں جن سے انھیں اپنا سارا بدن اور زیب و زینت ڈھانپ کر گھر سے باہر نکلنے کا حکم ہے۔ اب بڑی بوڑھوں کی رخصت صرف یہ ہے کہ ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ گھر میں ہر وقت دوپٹہ یا اوڑھنی اوڑھے رکھیں یا جب کسی ضرورت سے گھر سے باہر نکلیں تو بڑی چادروں میں اپنے پورے جسم کو ڈھانپ کو نکلا کریں۔ اور یہ رخصت بھی صرف اس صورت میں ہے جب انہوں نے سنگھار اور میک اپ وغیرہ نہ کیا ہو۔ اور اگر ایسی صورت ہو اور انھیں بھی اپنی زیب و زینت کا اظہار مقصود ہو یا ان کا بھی بناؤ سنگھار کرنے یا اس کی نمود و نمائش کرنے کو جی چاہتا ہو تو انھیں یہ رخصت نہیں ملے گی۔ [٩٢] یعنی اگر بڑی بوڑھی عورتیں بھی اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھائیں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسے دیکھنے والے سارے بوڑھے یا متقی لوگ تو نہیں ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شہوت کا مارا اوباش اس سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر دے اور اس پر بھی ہاتھ صاف کرنے سے نہ چوکے۔ لہٰذا بوڑھی عورتیں بھی اس رخصت کا استعمال موقع و محل کا لحاظ رکھ کر کریں۔ بصورت دیگر اس رخصت پر عمل نہ کریں۔ یہی چیز ان کے حق میں بھی بہتر ہے اور معاشرہ کے حق میں بھی۔