وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اور منافقین نے اللہ کی سخت قسمیں (٣٠) کھائیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں گے تو وہ جہاد کے لیے ضرور نکلیں گے، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ قسمیں نہ کھائیں، فرمانبرداری تو خود معلوم ہوجاتی ہے بیشک اللہ تمہارے کارناموں سے خوف واقف ہے۔
[٨٠] طاعہ معروفہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا سچے دل سے عہد کیا ہو۔ وہ اطاعت کرکے دکھا دیتے ہیں اور انھیں قسمیں کھانے کی کبھی ضرورت پیش ہی نہیں آتی۔ قسمیں کھانے اور قسمیں کھا کر یقین دلانے اور اپنا اعتماد بحال کرنے کی تو ضرورت ہی تب پیش آتی ہے جب کسی کا اعتماد مجروح ہوچکا ہو۔ اور آئندہ بھی اس کی صحیح صورت یہ نہیں کہ بس پکی قسمیں کھا کر اعتماد بحال کرنے کی کوشش کریں۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ عملی طور پر اطاعت کرکے دکھا دیں۔ اس طرح قسمیں کھانے کے بغیر ہی ان کا اعتماد بحال ہوجائے گا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جتنی اور جیسی وہ اطاعت کر رہے ہیں تو وہ پہلے ہی سب کو معلوم ہے۔ پہلے بھی لوگ ایسے بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے اور یقین دہانیاں کراتے تھے۔ قسمیں کھانے کے بعد ایسی اطاعت کی ان سے کیا توقع ہوسکتی ہے؟ [٨١] یعنی تم لوگ اگر قسمیں کھا کر لوگوں کو اپنی بات کا یقین دلا بھی دو تو اللہ کے سامنے تو تمہاری ایسی چالاکیاں اور فریب کاریاں کسی کام نہیں آسکتیں۔ جو تمہاری تمام ظاہری اور باطن خباثتوں سے پوری طرح باخبر ہے اور وہ کسی وقت بھی تمہاری عیاری اور نفاق کا پردہ چاک کرسکتا ہے۔