وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ
اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کردے تو ان ایک گروہ منہ موڑ کر چل دیتا ہے۔
[٧٦] اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اللہ کے رسول کی طرف بلانا دراصل اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلانا ہے۔ رسول کی دعوت اور رسول کی طرف دعوت دراصل اللہ کی دعوت اور اللہ کی طرف دعوت ہے۔ دوسرے یہ کہ رسول کا فیصلہ حقیقتاً اللہ ہی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جو شخص رسول کی طرف جانے یا اس کا فیصلہ کروانے یا اس کا فیصلہ تسلیم کرنے سے اعراض کرے وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس آیت کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ آپ کے بعد کوئی بھی اسلامی حکومت جس میں عدالتیں کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق فیصلے کرتی ہوں اور ایسی عدالت کی طرف سے اگر کسی شخص کو بلاوا یا سمن آئے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہی بلاوا سمجھا جائے گا۔ اور اس سے اعراض کرنے والا مومن نہیں بلکہ منافق ہوگا۔ علاوہ ازیں ہمارے اختلافی مسائل میں بھی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور کتاب و سنت میں ہمارے اکثر اختلافی مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کی طرف جانے یا اس کا فیصلہ ماننے سے اعراض کرے تو وہ بھی حقیقتاً مومن نہیں بلکہ منافق ہیں۔ مقلد حضرات کے لئے بھی یہ آیت لمحہ فکریہ ہے جن میں سے بعض کا تو یہ حال ہے کہ جب ان سے کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کو کہا جائے تو چیں بہ جبیں ہوجاتے ہیں اور چل دیتے ہیں اور بعض یوں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے امام صاحب کو بھی یہ آیت اور یہ حدیث معلوم تھی۔ آخر انہوں نے بھی کسی دلیل سے یوں کہا ہوگا اور وہ دلیل ہمیں جاننے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم مقلد ہیں۔