فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
وہ چراغ ایسے گھروں (٢٤) میں ہے جن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ ان کی قدرو منزلت کی جائے اور ان میں صرف اسی کا نام لیا جائے، ان گھروں (یعنی مسجدوں) میں صبح و شام اس کی تسبیح ایسے لوگ پڑھتے رہتے ہیں۔
[٦٢] بعض علماء نے یہاں بیوت سے مراد مساجد لی ہیں اور ترفع سے مراد انھیں تعمیر کرنا لیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے نور بصیرت عطا کیا ہوتا ہے اور وہ ہر وقت حق کے متلاشی رہتے ہیں۔ اور جب انہیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو وہ انھیں تسلیم کرنے کے لئے پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں ایسے لوگ مساجد میں پائے جاتے ہیں۔ انھیں دیکھنا ہو تو اللہ کی مساجد میں دیکھو جہاں ہر وقت اللہ کا ذکر بلند ہوتا رہتا ہے۔ اور صبح و شام وہاں ایسے لوگ نمازوں اور تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ توجیہ بھی درست ہے مگر یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں جس کی بنا پر بیوت کے لفظ کو صرف مساجد تک محدود کردیا جائے لہٰذ اکثر علماء کے نزدیک بیوت سے مراد سب مومنوں کے گھرانے ہیں۔ اور ہر گھر میں اللہ کا ذکر بھی ہوتے رہنا چاہئے اور تسبیح و تہلیل بھی۔ حتیٰ کہ فرض نمازوں (یعنی جو نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے جنہیں ہم اپنی زبان میں ہر نماز کی فرض رکعات کہتے ہیں) کے علاوہ نماز کا باقی حصہ سنت یا نفلی نمازیں بھی اپنے اپنے گھروں میں ادا کرنا بہتر ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص مساجد میں جانے سے معذور ہو تو وہ فرض نمازیں بھی گھر پر (اکیلے یا باجماعت) ادا کرسکتا ہے۔ جب کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب سے مجھے ہوش آیا میں نے اپنے والدین کو مسلمان ہی پایا۔ اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں نہ آئے ہوں۔ صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو وقت تشریف لاتے پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جی میں آیا تو انہوں نے اپنے صحن میں ایک مسجد بنائی وہ وہاں نماز ادا کرتے اور قرآن پڑھتے۔ مشرکوں کی عورتیں کھڑی ہو کر سنا کرتیں ان کے بچے بھی سنتے اور تعجب کرتے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھتے رہتے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک رونے والے آدمی تھے تو اپنی آنکھوں سے آنسو روک نہ سکتے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مشرکین قریش سٹ پٹاگئے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الاستلقاء فی المسجدومدالرجل) ٢۔گھروں میں نوافل کی ادائیگی :۔ محمود بن ربیع الانصاری کہتے ہیں کہ عتبان بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب سے تھے اور بدر کی جنگ میں شریک تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بینائی بگڑ گئی ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں۔ جب مینہ برسے تو نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے درمیان ہے۔ لہٰذ میں ان کی مسجد میں جا نہیں سکتا کہ ان کو نماز پڑھا سکوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں تو میں اس جگہ کو مسجد بنا لوں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا میں ان شاء اللہ یہ کام کروں گا“ چنانچہ (دوسرے دن) صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں دن چڑھے میرے ہاں آئے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھنے سے پہلے ہی پوچھا : ” اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہو جہاں میں نماز پڑھوں؟“ عتبان نے آپ کو گھر کا ایک کونا بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا ہم بھی کھڑے ہوئے اور صف باندھی آپ نے دو رکعت (نفل) پڑھ کر سلام پھیرا۔ پھر ہم نے حلیم تیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا۔ محلہ کے اور آدمی بھی گھر میں جمع ہوگئے۔ ان میں ایک آدمی کہنے لگے : مالک بن دخیشن یا دخشن کہاں ہے؟ کسی نے (عتبان سے) کہا :” وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں رکھتا“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایسا مت کہو۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ کہتا ہے“ عتبان کہنے لگے : ” اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اس کی توجہ اور ہمدردی منافقوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں“ آپ نے فرمایا : ” اللہ عزوجل نے آگ کو اس شخص پر حرام کردیا ہے جو خالصتا اللہ کی رضا مندی کے لئے لا الہ الا اللہ کہتا ہے۔“ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب المساجد فی البیوت)