وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت (٤) دھریں، پھر چار گواہ نہ لائیں، انہیں تم لوگ اسی کوڑے لگاؤ، اور کبھی ان کی کوئی گواہی قبول نہ کرو، اور وہی لوگ فاسق ہیں۔
[٧] کسی پرتہمت لگانا بہت بڑ اگناہ ہے:۔ یہاں محصن کا لفظ صرف پاکباز یا بے قصور کے معنوں میں آیا ہے۔ خواہ وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ ہو۔ حتیٰ کہ بعض علماء کے نزدیک پاکباز لونڈی پر تہمت زنا لگانا بھی اس شامل ہے۔ اور یہ حکم صرف مردوں کے لئے نہیں بلکہ عورتوں کے لئے بھی ہے کہ وہ پاکباز مردوں پر ایسی تہمت نہ لگائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گناہ کو ان سات بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کو ہلاک کردینے والے ہیں۔ (بخاری۔ کجتاب الوصایا۔ باب قول اللہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی۔۔۔الأیة ) تہمت کے اثبات کےلیے چار شہادتیں کیوں ؟ زنا کی شہادت سے مراد تو ایسی شہادت ہے جس میں وضاحت کے ساتھ فعل زنا کی شہادت ہو اور تہمت زنا کی شہادت سے مراد ایسے قرائن کی شہادت ہے جیسے کوئی یہ گواہی دے کہ میں نے فلاں اجنبی مرد اور عورت کو خلوت میں دیکھا ہے۔ یا بوس و کنار کرتے دیکھا ہے یا کوئی کسی کو ولدالزنا یا ولدالحرام کہے۔ ایسے مدعی کے لئے چار شہادتوں کا پیش کرنا ضروری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی چار شہادتیں میسر آنا نہایت مشکل ہے۔ لہٰذ شہادتوں کے اس سخت نصاب اور پھر سخت سزا سے اصل مقصود یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی برائی دیکھ بھی لے تو اس کے لئے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ پردہ پوشی کرے اور مطلقاً اس کی تشہیر نہ کرے۔ یا پھر چار شہادتیں مہیا کرکے صرف حکومت کو مطلع کرے تاکہ حکومت ملزموں کا جرم ثابت ہوجانے پر انھیں سزا دے کر اس گندگی کا سدباب کرے۔ تیسری راہ اختیار کرنا یعنی عام لوگوں میں ایسی باتیں پھیلانا معاشرہ کے حق میں اور خود اس کے حق میں انتہائی خطرناک ہے۔ دوسری بات محصنٰت کے لفظ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو مرد یا عورت پہلے ہی بدنام مشہور ہوچکے ہوں یا پہلے ہی سزا یافتہ ہوں ان پر الزام لگانے سے نہ حد پڑے گی اور نہ ہی وہ غیر مقبول الشہادت قرار پائیں گے تاہم انھیں ایسے کام سے پرہیز کرنا چاہئے۔ [٨] پردہ پوشی کس لحاظ سے بہترہے؟ خواہ ایسے لوگ اپنی بات یا دعویٰ میں حقیقتاً سچ ہوں مگر مکمل ثبوت فراہم نہ ہونے کے باعث جھوٹے قرار پاگئے ہوں تب بھی ایسے لوگ بدکردار ہیں۔ اللہ کے ہاں بھی اور لوگوں کے ہاں بھی۔ اور ان کی بدکرداری یہ ہے کہ ایسی فحاشی کی بات کو معاشرے میں پھیلانا شروع کردیا۔ جسے وہ ثابت نہیں کرسکے۔ لہٰذ مسلمانوں کے لئے راہ نجات پردہ پوشی میں ہی ہے۔