سورة النور - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] سورہ نورکے نزول کا پس منظر :۔سورۃ نور غزوہ بنی مصطلق کے بعد ٦ ہجری میں نازل ہوئی۔ اور غزوہ بنی مصطلق، غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کے بعد واقع ہوا تھا۔ غزوہ خندق کے موقع پر اتحاد کافروں کا لشکر دس ہزار کے لگ بھگ تھا اور یہ لشکر ایک ماہ کے بعد ناکام واپس لوٹا تھا۔ اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’آج کے بعد کافر ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے۔ بلکہ اب ہم ان پر حملہ آور ہوا کریں گے‘‘ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اسلام اور اسلامی ریاست اتنی مضبوط اور اپنے پاؤں پر قائم ہوچکی تھی۔ اور کفر کی تمام قوتوں، جس میں مشرکین مکہ، دوسرے مشرک عرب قبائل، مدینہ کے یہود اور منافقین سب شامل تھے، میں اب اتنی سکت باقی نہ رہ گئی تھی کہ سب مل کر بھی مدینہ پر حملہ آور ہوسکیں۔ میدان جنگ میں مات کھانے کے بعد ان لوگوں نے یہ حربہ اختیار کیا کہ جس طرح بن پڑے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرکے اور ان میں پھوٹ ڈال کر اس طاقت کو کمزور بنا دیا جائے۔ منافق چونکہ مسلمانوں کے اندر گھسے ہوئے تھے اس لئے وہ اس سلسلہ میں سب سے اہم کردار ادا کرسکتے تھے۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی سفر کے دوران عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے اسی سازش کے تحت دو کارنامے سرانجام دیئے۔ اتفاق سے انصار اور مہاجرین میں کچھ جھگڑا ہوگیا۔ تو عبداللہ بن ابی نے اس واقعہ کو اتنی ہوا دی کہ حمیت جاہلیت سے کام لے کر انصار اور بالخصوص منافقوں کو اتنا برافروختہ کردیا کہ قریب تھا کہ ان میں لڑائی چھڑ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا اطلاع ہوئی تو آپ نے فوراً موقع پر پہنچ کر حالات پر کنٹرول کرلیا۔ اس دوران عبداللہ بن ابی نے بہت بکواس کی جس کا تفصیلی ذکر سورۃ منافقون میں آئے گا۔ دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا دی اور یہ واقعہ ''افک'' کے نام سے مشہور ہے۔ اس واقعہ کا ان منافقوں نے اس قدر پروپیگنڈا کیا کہ بعض مخلص مسلمان بھی اس پروپیگنڈا سے متاثر ہوگئے۔ واقعہ افک کا تفصیلی ذکر تو آگے آرہا ہے سردست یہ بتلانا مطلوب ہے کہ پورا مہینہ یہ افواہیں پھیلتی رہیں۔ منافق اس تہمت کو پھیلانے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہے تھے۔ اور اتفاق کی بات کہ وحی بھی نازل نہیں ہو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مسئلہ میں پورا ایک مہینہ پریشان رہے۔ ایک ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نور نازل فرمائی جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی واشگاف الفاظ میں بریت فرمائی۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کے لئے نہایت مفید احکام اور پند و نصائح نازل فرمائے۔