سورة المؤمنون - آیت 72

أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے نبی ! کیا آپ ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں، پس آپ کے رب کی اجرت آپ کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور وہ بہت ہی اچھا روزی دینے والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٤] آپ کی دعوت سے ان لوگوں کے انکار کی ایک چوتھی وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ آپ ان سے اپنی اس محنت تبلیغ کا معاوضہ مانگتے ہوں اور وہ اسے تاوان سمجھ کر اس سے انکار کردیں۔ یہ بات بھی نہ تھی۔ نہ صرف یہ کہ آپ بے لوث ہو کر دعوت دین کا کام سرانجام دے رہے تھے بلکہ اس سے کئی مسائل پیدا ہوگئے۔ نبوت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے۔ نبوت کے بعد یہ شغل چھوٹ گیا۔ پہلے آپ مالدار تھے، بعد میں افلاس میں مبتلا ہوگئے۔ پہلے آپ اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا تھے۔ بعد میں وہی قوم آپ کی دشمن بن گئی۔ قوم نے آپ سے سمجھوتہ کی خاطر بے شمار مال و دولت قدموں میں ڈھیر کرنے کا لالچ دیا مگر آپ نے اسے ٹھکرا دیا۔ اس سے ان لوگوں کو اتنا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ جو شخص کئی طرح مصیبتیں سہہ کر اور بغیر معاوضہ کے ایسی خدمت سرانجام دے رہا ہے اس کی کوئی غرض دنیا سے وابستہ نہیں ہوسکتی۔ اور جس ہستی کے لئے وہ اتنی مشقتیں برداشت کر رہا ہے اس کا معاوضہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور وہ ایسے ذرائع سے رزق مہیا کرتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے۔