وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ
اور ہم نے مریم کے بیٹے اور ان کے ماں (مریم) کو اپنی قدرت کی نشانی (١٢) بنائی تھی، اور ہم نے ان دونوں کو ایک اونچی زمین میں پناہ دی جو رہنے کے قابل اور چشمے والی تھی۔
[٥١]عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کےمنکرین کا رد:۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابن مریم بھی ایک نشانی تھے اور ان کی والدہ بھی ایک نشانی تھی۔ بلکہ یوں فرمایا ان دونوں کو ملا کر ایک نشانی بنایا۔ اور اس کی صورت صرف یہی رہ جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت کو بن باپ تسلیم کیا جائے نیز یہ بھی کہ حضرت مریم علیہا السلام کسی مرد کے چھوئے بغیر ہی نفحہ الٰہی سے حاملہ ہوئی تھیں۔ [٥٢]ربوۃ کا لغوی مفہوم اورا س سے مراد: رَبوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جو عام سطح زمین سے قدرے بلند ہو اور اس کی مٹی بھربھری اور ریتلی قسم کی ہو۔ ایسی زمین پانی کو اپنے اندر جذب کرکے خوب پھول جاتی ہے۔ پنجابی میں ایسی زمین کو ’’میرا زمین‘‘ کہتے ہیں۔ اس زمین کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عام زمین کی نسبت سرسبز و شاداب بھی زیادہ ہوتی ہے اور بلند بھی ہوتی ہے۔ اب اس ربوۃ کے تعین میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہی بلند مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش واقع ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک چشمہ بھی جاری کردیا تھا اور کھجور کے ٹنڈ درخت سے اللہ کے حکم سے تازہ کھجوریں گرنے لگی تھیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کا ظالم یہودی بادشاہ ہیروڈس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دشمن بن گیا تھا۔ حضرت مریم ان کی حفاظت کی خاطر اللہ کے حکم سے مصر کی طرف ہجرت کر گئیں۔ اور ایک بلند چشمہ دار جگہ پر قصبہ میں مقیم ہوئیں جسے رملہ کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہیں جوان ہوئے پھر جب ہیروڈس مرگیا تو حضرت مریم انھیں لے کر اپنے وطن واپس آگئیں۔ اسرائیل روایات اسی توجیہ کی تائید کرتی ہیں۔ اور ربوۃ کے ساتھ ذات قرار سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں ضروریات زندگی مہیا ہوسکتی ہوں اور انسان کو وہاں قیام کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اور معین کا لفظ تائید مزید کے لئے ہے۔ جس کا معنی جاری پانی، نتھرا پانی، بہتا ہوا چشمہ، ٹھنڈا اور میٹھا پانی سب کچھ آتا ہے۔ بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان کے ضلع گورداسپور میں واقع ایک قصبہ قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ وہ خود تو وہیں قادیان میں دفن ہوا اور ان کا مقبرہ بھی وہیں بنا۔ ١٩٤٧ ء میں پاکستان بنا تو مرزا صاحب کی امت وہاں سے پاکستان کے ضلع جھنگ میں منتقل ہوئی اسی طرح ایک بلند زمین اپنے ہیڈکوارٹر کے لئے منتخب کی اور اس کا نام ربوہ رکھ لیا۔ مرزا صاحب کے خلیفے اور اولاد وہیں اقامت پذیر ہیں۔ مرزاقادیانی کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کی نشاندہی :مرزا صاحب نے صرف نبوت کا ہی دعویٰ نہیں کیا بلکہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ آپ عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کے تو قائل تھے لیکن رفع عیسیٰ کے قائل نہیں تھے۔ کیونکہ اگر وہ اس کے قائل ہوتے تو آپ کو مسیح موعود بننے میں مشکل پیش آتی تھی۔ آپ کی امت نے تو جھنگ میں ایک ربوہ بنالیا لیکن آپ نے کشمیر کو ربوہ قرار دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت قرار دینے کے بعد فرمایا کہ ان کی قبر کشمیر میں ہے۔ کشمیر کے صدر مقام سری نگر کے محلہ خانیار میں ایک قبر ''یوسف آز'' کے نام سے مشہور ہے۔ عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ کسی نبی کی قبر ہے جو کوئی شہزادہ تھا اور کسی دوسرے ملک سے یہاں آیا تھا۔ مرزا صاحب کے مقصد کے لئے یہ بے سروپا افواہیں ہی کافی تھیں۔ چنانچہ آپ کو الہام ہوگیا کہ یہ قبر تو عیسیٰ علیہ السلام ہی کی ہے۔ اب اگر آپ کی امت کے بقول آپ کے الہام کو درست سمجھ بھی لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر نہیں بلکہ ان کی والدہ کا بھی ذکر ہے لہٰذا آپ کو الہام تو دو قبروں کا ہونا چاہئے تھا۔ مگر افسوس ہے کہ وہاں قبر صرف ایک ہی ہے۔ اس سے آپ کی نبوت اور الہامات کی بھی قلعی کھل جاتی ہے۔