سورة المؤمنون - آیت 44

ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَىٰ ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَّسُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُم بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پھر ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے، جب بھی کسی گروہ کے پاس اس کا رسول آیا، انہوں نے اسے جھٹلایا، تو ہم بھی انہیں یکے بعد دیگرے ہلاک کرتے گئے اور انہیں کہانیاں بناتے گئے، پس ایمان نہ لانے والوں سے دنیا پاک ہوتی گئی۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٦] قوم عاد اولیٰ اور عاد ثانی کے بعد، موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک درج ذیل انبیاء مبعوث ہوئے۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت ایوب، اور حضرت شعیب علیہم السلام یہ تو وہ انبیاء ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے اور جن کا ذکر قرآن میں نہیں آیا وہ ان سے بہت زیادہ ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دنیا میں مبعوث ہونے والے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ٣١٣ تا ٣١٥ بتلائی اور انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتلائی جبکہ قرآن میں صرف ٢٧ انبیاء و رسل کا ذکر ہے۔ قوم عاد کےبعد انبیاء :۔ اب اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو جہاں تک انسانی علم کی رسائی ہوسکی ہے اس کے مطابق عاد اولیٰ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیانی مدت تقریباً چار ہزار سال پر محیط ہے۔ اس طویل عرصہ میں لاتعداد انبیاء و رسل مبعوث ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ ان انبیاء کا ایسا تانتا بندھا ہوا تھا کہ کوئی وقت ایسا نہ تھا جب روئے زمین پر کوئی نبی موجود نہ ہو۔ بلکہ بیک وقت ایک ہی زمانے میں کئی کئی انبیاء مبعوث ہوتے رہے۔ ان سب سے یہی سلوک ہوتا رہا کہ انھیں جھٹلایا گیا۔ کیونکہ چودھری قسم کے لوگ قطعاً اس بات پر آمادہ نہیں ہوتے کہ وہ اپنی سرداریوں سے دستبردار ہو کر نبیوں کے مطیع فرمان بن جائیں۔ وہ دوسرے لوگوں کو بھی انبیاء کے خلاف بھڑکاتے رہے۔ ان کے اس جرم کی پاداش میں ان پر عذاب آتے رہے۔ ایک قوم مٹتی تو دوسری اس کی جگہ لیتی رہی۔ پھر اس کے مقررہ وقت کے مطابق اسے بھی صفحہ ہستی سے نیست و نابود کیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ ان کے آثار بھی باقی نہ رہے، ماسوائے ان داستانوں اور افسانوں کے جو بعد کے آنے والے لوگوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے۔