سورة المؤمنون - آیت 33

وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو ان کی قوم کے سرداروں نے کہا جنہوں نے کفر کیا تھا اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تھا اور جنہیں ہم نے دنیا کی زندگی میں خوب آڑام و ستائش دے رکھا تھا، یہ تو تمہارے ہی جیسا انسان ہے جو تم کھاتے ہو وہ کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو وہ پیتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٨] انبیاء کی دعوت کی زد چونکہ چودھری قسم کے لوگوں پر ہی پڑتی ہے اور انھیں اپنی سرداریاں خطرہ میں پڑتی نظر آتی ہیں۔ اس لئے انبیاء کے اولین مخالف یہی لوگ ہوتے ہیں۔ اور عام لوگوں میں چونکہ انھیں کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ لہٰذا انبیاء کی دعوت کے مقابلہ میں انھیں عوام سے سرکھپانا پڑتا ہے۔ تاکہ وہ انبیاء کی دعوت قبول کرکے ان کے دائرہ اثر سے باہر نہ ہوجائیں۔ مشرکین مکہ کی طرح قوم عاد بھی اخروی زندگی کی منکر تھی۔ اور مال و دولت کی فراوانی اور آسودگی کی زندگی نے ان سرداروں کو بالکل خدا فراموش بنا رکھا تھا۔ اور ان کا منتہائے مقصود صرف دنیا کا مال و دولت اور اس کا حصول تھا۔ [٣٩] نبی کی دعوت کے مقابلہ میں جس بات کی دعوت وہ عوام الناس کو دے سکتے تھے وہ یہی تھی کہ آخر اس نبی میں کیا خوبی ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو وہ بھی تمہارے ہی جیسا انسان اور کھانے پینے کا محتاج ہے۔