يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩
اے ایمان والو ! تم اپنے رب کے لیے رکوع (٣٩) کرو، اور سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو اور کار خیر کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
[١٠٧] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ خطاب انفرادی طور پر ہو۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اخروی نجات اور کامیابی کے لئے تین کاموں کا سرانجام دینا نہایت ضروری ہے۔ نماز کی درست طور پر ادائیگی۔ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت جس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ اور نیک اعمال کی بجا آوری اور یہ خطاب مجموعی طور پر بحیثیت امت سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس قوم میں یہ صفات موجود ہوں ان کی اخروی کامیابی تو یقینی ہے ہی، ان کی دنیا میں بھی کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ سورہ حج کی فضیلت:۔سورہ حج کے فضیلت یہ ہے کہ اس میں دو سجدے آئے ہیں ﴿لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ بھی مقام سجدہ تلاوت ہے۔ اس سورۃ کا پہلا سجدہ تو متفق علیہ ہے۔ لیکن یہ دوسرا سجدہ اختلافی ہے سجدہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے۔ یہاں ایمان لانے والوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا ہے۔ اور دوسرے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ یہاں رکوع اور سجدہ کا اکٹھا حکم آیا ہے۔ اور جہاں یہ دونوں الفاظ اکٹھے آئیں تو اس سے مراد پوری نماز لی جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں نماز کے ہی جزء اشرف ہیں اور جزء اشرف بول کر اسے کل مراد لینا اہل عرب کا عام دستور ہے۔ بلکہ بعض دفعہ قرآن میں صرف رکوع یا صرف سجود کے لفظ سے بھی پوری نماز مراد لی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں قائلین کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ بعض روایات بھی ان کی تائید کرتی ہیں اگرچہ وہ روایات اتنی قوی نہیں ہیں۔