سورة الحج - آیت 67

لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ۚ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہم نے ہر گروہ کے لیے ایک شریعت (٣٤) مقرر کردی تھی جس کی وہ اتباع کرتے تھے، پس ان (یہود و نصاری اور مشرکین) کو آپ سے دین کے معاملے میں جھگڑنا نہیں چاہیے، اور آپ انہیں اپنے رب کی طرف بلاتے رہیے، آپ یقینا سیدھی راہ پر گامزن ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٦] منسک کا معنی اور منسک اور منھاج کا فرق:۔ منسک کا لفظ اگرچہ حج کے شعائر و احکام اور ادائیگی سے مختص ہوگیا ہے اور مناسک حج سے مراد اعمال اور ارکان حج ادا کرنے کے مقامات، قاعدے اور طریقے ہیں اور نسک اس قربانی کو کہتے ہیں جو حج کے دوران کی جاتی ہے۔ تاہم اس لفظ کے معانی میں یہ وسعت ہے کہ اس کا اطلاق تمام عبادات کے طریق کار پر ہوتا ہے اور یہ لفظ منہاج سے اخص ہے۔ منہاج کے معنی میں تمام شرعی احکام کی ادائیگی کا طریق کار شامل ہے اور یہ طریق کار بھی اللہ ہی کی طرف سے بتلایا جاتا ہے اور منسک کا اطلاق صرف عبادات کے طریقے کار پر ہوتا ہے۔ [٩٧] عبادات کا طریق کار ہر نبی اور اس کی امت کے لئے مختلف رہا ہے اور اس میں وقت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھا جاتا رہا ہے۔ اور چونکہ یہ طریق کار بھی اللہ ہی طرف سے ہوتا ہے لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس بارے میں آپ سے بحث یا جھگڑا کرے۔ کیونکہ اس زمانہ میں یہی طریق کار درست اور برحق ہے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا جارہا ہے۔