وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور تاکہ وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے جان لیں کہ قرآن آپ کے رب کی برحق کتاب ہے، پس اس پر ایمان لے آئیں، پھر ان کے دل اس کے لیے عاجزی اختیار کریں، اور بیشک اللہ ایمان والوں کی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
[٨٣]مشرکین کیوں سجدہ ریز ہوئے تھے؟ یعنی ایمان والے فوراً یہ سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں بات تو فی الواقع وحی الٰہی ہے یا ہوسکتی ہے اور فلاں بات شیطان کا وسوسہ یا دھوکا ہے۔ واضح رہے کہ مندرجہ بالا واقعہ میں سے اس کا صرف آخری حصہ ہی ایسا ہے۔ جو درست ہے اور صحیح احادیث میں مذکور ہے۔ یعنی کسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ النجم تلاوت فرمائی۔ اس کے اختتام پر آپ نے اور مسلمانوں نے سجدہ کیا تو پاس بیٹھے ہوئے مشرکوں نے بھی سجدہ کیا۔ ماسوائے ایک شخص (امیہ بن خلف) کے کہ اس نے کنکریوں کی ایک مٹھی اٹھائی اور اسے اپنی پیشانی سے لگا کر کہنے لگا کہ بس مجھے اتنا ہی کافی ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ والنجم) رہی یہ بات کہ قرآن شریف میں بتوں کی تعریف مذکور ہو یا یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے ہوں، ایمان والے فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بات ناممکنات سے ہے۔ رہا مشرکوں کا مسلمانوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوجانا تو اس کی وجہ قرآن کی اپنی تاثیر ہے۔ جس کی بنا پر وہ قرآن کو جادو اور آپ کو جادو گر کہا کرتے تھے اور مسلمانوں پر قرآن بلند آواز سے پڑھنے پر پابندی لگا رکھی تھی کہ اس سے ان کی عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی قرآن کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔