الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
جنہیں ہم جب سرزمین کا حاکم بناتے ہیں تو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور تمام امور کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔
[٦٩]اسلامی حکومت کی ذمہ داریاں :۔ اس آیت میں اسلامی طرز حکومت کے خدوخال اور حکومت چلانے والوں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام میں ریاست کا قیام اصل مقصود نہیں بلکہ یہ کسی دوسرے عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں بھی غیر اسلامی ریاستوں سے بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً ایک غیر اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں محض یہ ہیں کہ پولیس کے ذریعہ امن بحال رکھا جائے۔ انتظامیہ کے ذریعہ حکومتی کاروبار چلایا جائے اور فوج کے ذریعہ سرحدوں کی حفاظت کی جائے۔ جبکہ ایک اسلامی ریاست یہ ذمہ داریاں بھی پورا کرتی ہے اور یہ اس کا ثانوی فریضہ ہوتا ہے اس کے قیام کے اولین مقاصد یہ ہیں۔ ١۔ پوری ریاست میں نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کیا جائے۔ ٢۔ مکروہ کاموں کی روک تھام کی جائے اور اچھے کاموں کو فروغ دیا جائے اور ان اغراض کے لئے محکمہ قائم کئے جائیں اور اس طرح۔ ٣۔ ملک سے ظلم وجور کو ختم کرکے عدل و انصاف قائم کیا جائے اور اس راہ میں جو باطل قوتیں مزاحم ہوں۔ ان کو دور کیا جائے اور اسی کا نام جہاد ہے۔ علاوہ ازیں چونکہ ایک اسلامی ریاست کی بنیاد اخلاقی اقدار پر اٹھتی ہے، اسی لئے اسلام نے حکومت کے انتظام و انصرام کو وہ اہمیت نہیں دی جو اخلاقی اقدار کو دی ہے اور یہی چیز ایک اسلامی طرز حکومت کو دوسرے تمام اقسام حکومت سے ممتاز کرتی ہے۔ اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عموماً اور مہاجرین کی خصوصاً اور بالخصوص خلفائے راشدین کی حقانیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ جن کے ذریعہ وہ تمام امور بطریق احسن سرانجام پائے جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ اور جن کی داغ بیل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈالی تھی۔ [٧٠] یعنی ایک ایسے طرز حکومت کے قیام کا تصور خواہ موجودہ حالات میں ناممکن نظر آرہا ہو لیکن ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو ابابیلوں کے لشکر سے ہاتھیوں کے لشکر کو بھی پٹوا سکتا ہے۔ وہ آخر ایک اہل حق کی کمزور سی جماعت کے مقابلہ میں کفار کے کروفر والے لشکر کو مغلوب کیوں نہیں کرسکتا۔